کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 321
اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ائمہ کے حکم کے، ایسی سنت کے اتباع سے بھی گریز کرنے لگے جو ان کے زعم میں قرآن کے خلاف جاتی ہو مثلاً رجم، چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے مقرر نصاب وغیرہ، خوارج اپنے مخالف کی تکفیر کرتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص ان کی نظر میں قرآن کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے چاہے اسے غلطی لگی ہو یا چاہے وجوب، اور تحریم اعتقادی کے ساتھ گناہ کا مرتکب ہوا ہو۔ پھر بزعم خویش اس کے مرتد ہو جانے کی وجہ سے اس کے بارے میں ایسے امور کو بھی روا سمجھتے ہیں جو کافر اصلی کے بارے میں بھی روا نہیں جانتے، گناہوں اور غلطی لگنے کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کی جو بدعت انہوں نے رائج کی ہے وہ اسلام میں ظہور پذیر سب سے پہلی بدعت ہے۔ رافضہ اور شیعہ: ان کا مذہب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں قطعی نص ارشاد فرما رکھی تھی جس کے خلاف کوئی عذر باقی نہیں رہتا، ان میں سے مفضلہ کا گروہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر افضلیت کا قائل ہے جبکہ سبائیہ(دشنام طراز)گروہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینے کا قائل ہے، جبکہ ان کا غالی گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اللہ ہونے کا قائل ہے۔ رافضہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت(معصوم ہونے)اور ان سے اختلاف کرنے والے کے کافر ہونے کے قائل ہیں، ان کا مذہب ہے کہ مہاجرین و انصار ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے نص کو چھپایا تھا، امام معصوم کے ساتھ کفر کے مرتکب ہوئے، اپنی اہوائے نفس کی پیروی کی تھی، دین کو تبدیل کیا تھا، شریعت کو بدلتے تھے اور ظالم اور معتدی تھے بلکہ ماسوا چند کے سب کے سب کافر تھے۔