کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 32
انہی پر گواہ بناتے ہوئے کہا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے(یک زباں ہو کر)کہا: کیوں نہیں! ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔(اس وجہ سے)کہ کہیں تم روزِ قیامت یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے غافل رہے یا یہ کہو کہ ہمارے تو باپ دادا(ہم سے)پہلے ہی شرک کرتے(چلے آئے)تھے اور ہم انہی کی اولاد تھے تو کیا(اے اللہ)ان خطاکاروں کے اعمال کے سبب ہمیں ہلاک کرتا ہے۔(چنانچہ)اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ(ابھی)لوٹ آئیں۔‘‘(اعراف: 172-174) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا: بتا زمین کا سارا مال و دولت اگر تیرے پاس ہوتا تو کیا وہ سب کچھ دے کر تو(آج)چھوٹنے کی کوشش کرتا؟ وہ کہے گا: ہاں! کیوں نہیں۔ اللہ اس سے کہے گا میں نے تو اس سے کہیں زیادہ آسان چیز کا تجھ سے تقاضا کیا تھا۔ میں نے آدم کی پشت میں تجھ سے یہ میثاق لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے مگر تو میرے ساتھ شرک پر ہی بضد رہا۔‘‘(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ج11 ص 275 ومابعد) رحمت خداوندی کہ کسی کو عذاب نہ دیا جائے تاآنکہ رسالت سے حجت قائم کی جائے۔ اس بات کے باوصف کہ حجت(اسی وقت)قائم ہو چکی تھی اور کوئی عذر باقی نہ رہا تھا، الٰہ، بزرگ، دانا اور علیم و خبیر کی بے اندازہ حکمت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ وہ بے انتہا رحمت