کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 314
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اہل سنت بیک وقت دو امانتوں کے حامل ہیں: ایک علم، دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ اور دوسری ’’جماعت‘‘ کی حفاظت اور رکھوالی اپنے شرعی اور جامع مفہوم کے ساتھ۔۔ اہل سنت ان دنوں میں بہت نازک اور دقیق انداز سے توازن قائم و برقرار رکھنے کے لئے صرف اور صرف شرع ذی حکمت کی مدد لیتے ہیں، اور اس سلسلے میں ہوائے نفس، رسوم پرستی، مذہبی، گروہی تنظیمی، جماعتی، طریقتی، یا اس طرح کی دوسری جکڑ بندیوں سے کوسوں دور اور آزاد رہتے ہیں۔ بنا بریں مختلف جماعتوں، گروہوں، تحریکوں یا شخصی اجتہادات سے نسبت و تعلق ہونے باوجود اہل سنت آپس میں ایک دوسرے سے مجموعی طور پر محبت، دوستی، وفاداری اور ولاء کے رشتے سے پیوستہ رہتے ہیں۔ بلکہ اصل یہ ہے کہ یہ سب ایک ہاتھ ہوں اور نیکی اور تقویٰ کی خاطر باہم متعاون ہوں۔ کیونکہ اصل پیمان تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے اور یہ پیمان کسی انسان کے ساتھ کسی بھی خاص پیمان سے کہیں بڑھ کر اور عظیم تر ہے، جو کہ کسی بھی دوسرے پیمان کی قید سے محدود نہیں لیا جا سکتا بلکہ ہر ایسا پیمان خاص اللہ کے ساتھ پیمان کے تابع اور ماتحت ہی رہے گا اور مخلوق کی اطاعت یا پابندی صرف وہیں ہو سکتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو رہی ہو، جہاں اللہ کی معصیت ہو رہی ہو تو کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ چنانچہ اہل سنت کی اولین وفاداری، ولاء اور وابستگی صرف حق کے لئے ہوتی ہے اور اپنے شرعی ہمہ گیر مفہوم کے تحت عظیم تر ’’جماعت‘‘ کے لئے ہوتی ہے۔ اور وہ۔۔ اسی نقطہ نظر سے اور صرف اسی بنیاد پر۔۔ ہر فرد ہر جماعت اور گروہ کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں نہ کہ قبیلہ، شہر،