کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 312
بناء پر ان میں خیر اور شر ہر دو مجتمع تو ہو سکتے ہیں مگر ہر وہ خیر جو دوسروں میں پائی جا سکتی ہو وہ ان میں کہیں بڑھ کر پائی جاتی ہے، اور ہر وہ شر جو ان میں پایا جا سکتا ہو وہ دوسروں میں ان سے کہیں بڑھ کے اور بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ اور چونکہ اہل سنت ہی اہل ہدایت اور دین حق کے حاملین ہیں، اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس دین کی نصرت اور اسے تمام باطل ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ فرما رکھا ہے، اس لئے یہی اہل طائفہ منصورہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ تاقیامت حق پر قائم رکھ کر غالب کرے گا، چنانچہ انہی میں سے وہ لوگ ہیں جو زبان و قلم کے ذریعے غالب ہوتے ہیں اور انہی میں سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بدست و شمشیر غالب سرفراز ہوتے ہیں۔[1] اس مجموعی اور ہمہ گیر دائرے کے اندر رہتے ہوئے جو کہ اہل سنت و الجماعت کا انفرادی و اجتماعی طور پر احاطہ کرتا ہے، اہل سنت میں جتنا بھی اختلاف ہو جائے مگر وہ اس سب کچھ کے باوجود ’’جماعت‘‘ سے التزام بہرحال رکھتے ہیں۔ اس کی حفاظت و پاسبانی بھی کرتے ہیں اور اس کی شیرازہ بندی، یگانگت اور اس ’’جماعت‘‘ کے مابین مجموعی ولاء وفاداری کو برقرار رکھنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ آپس کی جان و مال اور عزت کی عصمت و حفاظت اور اس ’’جماعت‘‘ کے ہر فرد کے ساتھ دینی اخوت کی حرمت کو پامال ہونے نہیں دیتے۔ (5) اہل سنت و الجماعت ایک تابناک ورثہ کے عکاش اخلاق و سلوک کے ان خصائص کی بدولت بھی اپنا امتیاز قائم رکھتے ہیں جو حق کے میزان میں اس علمی ورثے سے کسی طور پر کم نہیں جو اپنی جگہ اس ’’جماعت‘‘ کا امتیاز ہے۔ چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے
[1] شیخ ابو بطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ غلبہ و ظہور سے مراد تلوار ہی کے ساتھ نہیں بلکہ دلیل اور حجت کے ساتھ تو ہمیشہ ہی اور بسا اوقات بزور شمشیر بھی۔ الرسائل النجدیہ: 8/288