کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 31
بقول ابن کثیر رحمہ اللہ: آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں، جو اس کی فرمانبرداری کرے گا اسے وہ پورا پورا اجر دے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اسے سخت ترین عذاب چکھائے گا۔(مختصر ابن کثیر ج 3 ص 3387)
میثاق فطرت
اللہ تعالیٰ کو چونکہ یہ علم تھا کہ یہ امانت بہت ہی وزنی ہے اور انسان کا مکلّف بننا بے انتہا شاق ہے، کہ یہ بہت ہی ناتواں مخلوق ہے جو ہر لحظہ اپنے مالک کی مدد کی محتاج ہے پھر چونکہ اللہ تعالیٰ جو حکمت و دانائی اور علم و معرفت میں بے مثل و بے مثیل ہے، کسی نفس کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں بناتا اس لئے اس حکیم و علیم نے انسان کو پیدا کرتے وقت اسے رب کی معرفت، توحید اور صرف اور صرف اس کی عبادت و اطاعت کا تصور فطری طور پر ودیعت کر دیا تاکہ اسی سے ہدایت کی جستجو کرے اور اسی کی طرف جبین نیاز کا رخ کرے۔ ارشاد ہے:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ﴿١٧٢﴾أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ﴿١٧٣﴾وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴿١٧٤﴾﴾
’’اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا اور ان کو