کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 306
حالانکہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کا حکم بھی دے رکھا ہے، تو ان گروہوں کے بارے میں کیونکر ایسا سوچا جا سکتا ہے جن پر ان کے مسائل میں حق مشتبہ ہوا ہے جن میں ان سے زیادہ علم والے بھی غلطی کر گئے ہیں۔ اس لئے ان جماعتوں یا گروہوں میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے کو کافر قرار دے اور اس کے جان و مال کو مباح قرار دے اگرچہ اس میں واقعی کوئی بدعت کیوں نہ ہو۔ اور پھر جب کافر قرار دینے والے خود بھی بدعت کے حامل ہوں تو پھر تو معاملہ کہیں سنگین ہوتا ہے اور بعض اوقات تو ان کی بدعت کہیں غلیظ تر ہوتی ہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ سبھی لوگ اپنے مابین اختلاف کردہ امور کی حقیقت سے لا علم اور جاہل ہوتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کے جان و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر حلال نہیں ہوتیں۔۔ اور جب مسلمان قتال یا تکفیر کے امور میں تاویل کرتا ہو تو اس بناء پر کافر نہیں ہوتا جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑاؤں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’یہ بدر میں شرکت کر چکا ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے دلوں کو جان چکا ہے اور اس نے فرما رکھا ہے: تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف فرما دیا ہے‘‘ اور یہ روایت صحیحین میں ہے۔(ج 3 ص 282-284)