کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 304
کہتا ہے کہ جس آدمی کے بارے میں علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز حرام یا باطل ہے تو وہ اہل سنت و الجماعت کے اجماع کا مخالف ہے۔۔ چنانچہ مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں ہو تو وہ ان کے ساتھ جمعہ و جماعت میں شرکت کرے اور مسلمانوں سے تعلق، دوستی اور وفاداری رکھے اور ان سے دشمنی یا بیر نہ رکھے۔ اگر ان میں سے کسی کو گمراہ یا غلط راستے پر پڑا ہوا دیکھے اور اسے ہدایت اور رشد و نصیحت کا راستہ دکھا سکتا ہو تو ضرور یہ کام کرے، بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں کرتا۔ لوگوں کو امامت کے منصب پر کسی کے افضل آدمی کو فائز کرانے میں اگر اس کی چلتی ہو تو ضرور ایسا کرے، بدعت اور فسق و فجور عام کرنے والوں کو روکنے اور باز کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو یہ بھی کام ضرور کرے۔ تاہم اگر مذکورہ استطاعت نہ ہو تو اس ایسے شخص کے پیچھے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زیادہ رکھتا ہو اور دوسروں سے بڑھ کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہو نماز ادا کرنا افضل ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں مروی ہے:((يوم القوم اقرءاهم لكتاب اللّٰه، فان كانوا في القراءة سواء فاعلمهم بالسنة، فان كانوا في السنة سواء فاقدمهم بجرة، فان كانوا في الهجرة سواء فاقدمهم سنا۔۔۔))کہ ’’امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا زیادہ علم رکھتا ہو، اگر اس میں سب برابر ہوں تو جس نے ہجرت پہلے کی ہو، اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بزرگ ہو‘‘۔ مظہر بدعت و فجور سے ہجر و کنارہ کشی اور روکجی اختیار کرنے میں کوئی راجح مصلحت ہو تو اس سے یہی رویہ روا رکھے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین صحابیوں سے یہ رویہ رکھا تھا جو جنگ