کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 300
ہے(مطلب یہ ہے کہ کفر کو چھپا کر رکھے اور سوائے اپنے خاص لوگوں کے کسی کے سامنے ظاہر نہ کرتا ہو۔ وگرنہ دلوں کے بھید اور باطن کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے)تو اس کی نماز جنازہ اور اس کے لئے استغفار اور دعائے مغفرت جائز ہے اگرچہ اس میں کوئی بدعت ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو یا کچھ گناہ بھی کیوں نہ کرتا ہو۔ اور اگر امام(مسلمان حاکم)یا اہل علم اور دیندار لوگ کسی مظہر بدعت یا مظہر فسق و فجور کا جنازہ اس مقصد کی خاطر چھوڑ دیں کہ لوگ اس سے سبق سیکھیں اور برائیوں سے باز رہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا جنازہ اور اس کے لئے دعائے مغفرت حرام ہے۔ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جس نے مال غنیمت ہتھیایا تھا، یا جس نے خودکشی کی تھی یا جو مقروض فوت ہو گیا تھا، فرمایا:((صلوا علي صاحبكم))کہ ’’تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔‘‘ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ خود بھی باطن میں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے تھے کہ بظاہر سبق آموزی کے لئے اس کو ترک کئے ہوئے تھے۔(ج 7 ص 216-217) ٭ بطور مثال امام احمد رحمہ اللہ ہی کو لے لیں جن کا واسطہ ان جہمیوں سے پڑا تھا جو انہیں خلق قرآن کے مذہب پر آمادہ کرتے تھے، صفات الٰہی کے منکر تھے اور اس بناء پر ان کو اور دیگر علماء وقت کو سزا و ابتلاء سے دوچار کرتے تھے، ان مومنین اور مومنات کو تازیانہ و زنداں کی اذیت دیتے جو جہمیت کو قبول کرنے میں ان کی آواز ملانے سے گریز کرتے تھے بلکہ پھانسیاں بھی دیتے، معزولیاں بھی کرتے، دانا پانی بھی بند کرتے، گواہی بھی رد کرتے اور ان کو دشمن کے ہاتھ سے چھڑانے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتے، جیسا کہ اس دور میں جہمیہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے والی اور قاضی کے درجے اولی الامر ہر اس شخص کو کافر کہتے تھے جو جہمی مذہب