کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 30
چونکہ زمین میں انسان کی خلافت کچھ شرائط سے مشروط ہے جو کہ اس طرح پوری ہوتی ہیں کہ اس رب تعالیٰ، شہنشاہ مطلق اور امرونہی کے یکتا مستحق کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، اس طرح کہ اس کے ثواب و خوشنودی کی خاطر اس کے احکام بجا لائے جائیں اور اس کے عذاب اور خفگی سے ڈرتے ہوئے وہ جس چیز سے روکے، رک جایا جائے اور یہ سب کچھ غایت درجہ احترام، محبت اور تعظیم کے دائرہ میں رہتے ہوئے کیا جائے، اس لئے انسان کی زمین میں خلافت کا مسئلہ اصل میں انسان کی اپنے رب جباروقہار کی عبادت کا مسئلہ ہے۔ بقول قرآن: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾(الذاریات: 56) ’’اور میں نے سب جنوں اور انسان کو صرف اس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر زمانے میں اللہ کی عبادت کی جائے، ان طریقوں سے جو اس نے اس زمانے میں رائج کئے ہیں۔ [1]
[1] بخاری اور مسلم دونوں نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ابن جریر میں بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہ آتا ہے کہ اللہ نے انسانوں سے میثاق لیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شرک نہیں کریں گے۔ عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ مسند احمد میں اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ، ابن جریر اور ابن مردویہ رحمہما اللہ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے انسانوں سے کہا میں تم پر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو اور تمہارے باپ کو گواہ بناتا ہوں تاکہ روز قیامت یہ نہ کہو ہمیں پتہ نہ چلا تھا۔ سن لو میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ نہ میرے علاوہ کوئی رب ہے اور نہ میرے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ میں تمہارے پاس رسولوں کو بھیجوں گا کہ تمہیں میرا عہد و پیمان اور میثاق یاد دلا دیں تم پر کتابیں بھی اتاروں گا۔ سب نے عرض کی۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود، تجھ بن ہمارا کوئی رب نہیں ہے۔ چنانچہ اس دن سب نے اس کی فرمانبرداری کا اقرار کیا۔ پوری نصوص دیکھنے کے لئے معارج القول، جلد اول صفحہ 34 اور مابعد۔