کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 297
جائے گا اور نہ برائی۔(ج 28 ص 211-212) ٭ قصہ کوتاہ ہجر و مفاصلت کا بسا اوقات ایسی بدعت کی برائی کو ترک کرانا ہوتا ہے جو ظلم، گناہ، برائی اور فساد کا درجہ رکھتی ہے اور بسا اوقات یہ کام جہاد اور نہی عن المنکر کی نیکی سر انجام دینے کے لئے کیا جاتا ہے اور ظالمین کے ساتھ بطور سزاوار رکھا جاتا ہے تاکہ وہ سبق سیکھیں اور اس برائی سے باز رہیں، یہ بھی مقصد ہوتا ہے کہ اس طریقے سے اہل ایمان اور اہل عمل صالح کے دلوں میں ایمان اور عمل صالح مضبوط و توانا رہیں کیونکہ ظالم کو سزا دینے سے دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی اس ظلم کے خلاف ہیبت قائم ہوتی ہے اور اس کے برعکس کام کی رغبت جنم لیتی ہے جو کہ ظاہر ہے ایمان اور سنت کی علامت ہے۔ چنانچہ جب اس ہجر و کنارہ کشی سے نہ تو کسی کو سبق حاصل ہوتا ہے اور نہ کوئی باز آتا ہو الٹا بہت سی ایسی نیکیوں کی فوتیدگی کا سبب بنتا ہو جن کا شریعت نے حکم دے رکھا ہے، تو اس وقت ایسے شخص سے ہجر قطع تعلقی کا حکم باقی نہیں رہتا، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اہل خراسان کے بارے میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ جہمیہ سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ جب آدمی اتنا ضعیف و ناتواں ہو کہ ان سے عداوت کا اظہار و اعلان نہ کر سکے تو نیکی اور بھلائی کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جاتی ہے اور ان سے لحاظ ملاحظے سے پیش آنے میں مومن کمزور سے دفع ضرر کیا جا سکتا ہے اور بعض اوقات اس طریقے سے ایک طاقتور گناہ گار کی تالیف قلب بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طریقے سے جب اہل بصرہ میں قدریہ کی بہتات ہوئی تو اگر ان سے حدیث کی روایت کرنا چھوڑ دی جاتی تو ان کے پاس جو علم، سنن اور آثار محفوظ تھے وہ مٹ کر رہ جاتے