کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 296
جہمیت در آئی تھی بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ان سے یہ انداز روا رکھنے کو کہا تھا۔ یہ اس لئے کہ ترک تعلقات ایک طرح کی تعزیر ہوتی ہے اور سزا ایک طرح کی ہجر و مفاصلت ہوتی ہے جو کہ برائیوں کو چھوڑنے کی صورت ہے۔ چنانچہ یہ کنارہ کشی اور روکجی بعض اوقات تو ایک قسم کا تقویٰ شمار ہوتی ہے۔ اور یہ اس وقت جب برائیوں سے ہجر و کنارہ کشی مطلوب ہو۔۔ اور بعض اوقات جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور اقامت حدود کے باب سے ہوتی ہے، دوسری طرف یہ ظلم و سرکشی کرنے والے کے لئے سزا بھی ہوتی ہے۔۔ اب جہاں تک ظالم کی سزا یا تعزیر کا تعلق ہے تو یہ قدرت و استطاعت سے مشروط ہے۔ اس لئے ہجر و مفاصلت کی دونوں انواع کے بارے میں بلحاظ قادر و عاجز بھی شرعی حکم مختلف ہو سکتا ہے اور ظالمین اہل بدعت کی قلت و کثرت اور ضعف و قوت کے لحاظ سے بھی، بلکہ کفر، فسق اور عصیان ایسی ظلم کی تمام انواع کی یہی صورتحال ہے اور اس سلسلے میں مختلف حالات میں شریعت کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ امر جسے اللہ رب العزت نے حرام کیا ہے وہ ظلم ہے چاہے وہ صرف حقوق اللہ میں سے ہو، چاہے حقوق العباد میں سے اور چاہے دونوں میں اس کا شمار ہو۔ چنانچہ یہ جو گناہوں اور منکرات کو چھوڑنے پر مبنی ہجر کا حکم دیا گیا ہے یا برے لوگوں سے بطور سزا و تعزیر ہجر و مفاصلت اختیار کر لینے کا حکم ہے یہ بھی اس وقت ہو گا جب اس سلسلے میں کوئی ایسی مصلحت نہ ہو جو اس کو اختیار کرنے کی بجائے نہ کرنے کا تقاضا کرتی ہو۔ وگرنہ کسی برائی میں اگر ایسی خوبی ہو جو اس برائی پر بھاری پڑ جاتی ہو تو وہ برائی نہیں رہے گی اور اگر سزا میں کوئی ایسا نقصان ہوتا ہو جو جرم سے بڑھ کر ہو تو وہ نیکی نہیں رہے گی بلکہ برائی بن جائے گی، اور اگر دونوں پہلوؤں کا پانسہ برابر ہو تو نہ اس کو نیکی کہا