کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 295
سے کبھی قتال کا رستہ اپنایا جاتا ہے کبھی جنگ بندی کی جاتی ہے اور کبھی جزیہ قبول کیا جاتا ہے، یہ سب کچھ حالات و واقعات کی روشنی میں اور مصالح کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ ایسے ائمہ نے جو جواب دیا ہے وہ اسی قاعدے پر مبنی ہے، چنانچہ وہ ان علاقوں میں جہاں بدعات کی کثرت ہوتی ہے، جیسا کہ بصرہ قدریہ کا گڑھ تھا، خراسان جہمیت کا اور کوفہ تشیع کا، اور ان علاقوں میں جہاں ان کی کثرت نہ تھی، دونوں میں فرق و تمیز کرتے تھے، اس طرح بااثر ائمہ و امراء اور عام لوگوں میں بھی فرق کرتے تھے۔ جب شریعت کا مقصد سمجھ میں آ جائے تو اس کے حصول کے لئے قریب ترین طریقہ اپنانا چاہیے۔(ج 28 ص 206-207) ٭ اسحاق رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ(احمد بن حنبل رحمہ اللہ)سے خلق قرآن کے قائل کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ وہ ہر برائی کا مستحق ہے۔ میں نے انسان ان سے پوچھا: انسان ان سے عداوت ظاہر کرے یا گول مول رویہ اختیار کرے؟ کہنے لگے: اہل خراسان تو ان سے ٹکر لینے کے نہیں، جبکہ قدریہ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم قدریہ سے روایت لینا چھوڑ دیں تو بیشتر اہل بصرہ کی روایت چھوڑنی پڑے۔ اور آزمائش کے دور میں وہ جس طرح ان کے ساتھ﴿ٱدْفَعْ بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ﴾بااحسن طریق رد کرنا اور صرف دلیل و حجت سے بات کرنے کا انداز اپنائے رہے، اہل خراسان کے بارے میں ان کا مذکورہ جواب اصل میں اپنے ان اقوال و افعال کی وضاحت کرتا ہے جو ایسے لوگوں سے ہجر و مفارقت اختیار کرنے اور ہم نشینی اور بول چال تک چھوڑ دینے پر مبنی ہیں۔ حتیٰ کہ امام احمد رحمہ اللہ نے بعض اعیان اکابر تک سے بھی یہ رویہ اپنایا تھا کیونکہ ان میں سے ایک گونہ