کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 294
دشمنوں کے لئے رہ جائے۔(ج 28 ص 208-209) ٭ یہ جو ہجر ہے اس کی نوعیت اس کے اختیار کرنے والوں کی ضعف و قوت اور قلت و کثرت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد ایک طرفہ شخص کو سرزنش اور تادیب ہے اور دوسری طرف عام لوگوں کو ایسی صورت حال میں پڑنے سے باز رکھنا ہے۔ چنانچہ اس کام میں اگر مصلحت کا پلڑا بھاری ہو یعنی اس ہجر و کنارہ کشی اور ترک تعلقات کر لینے سے شر کمزور پڑتا ہو اور اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہو تو پھر تو یہ کام مشروع اور درست ہو گا لیکن اگر اس طریقے سے نہ تو متعلقہ شخص اور نہ ہی کسی دوسرے آدمی کی سرزنش اور باز آوری ہوتی ہو بلکہ شر مزید بڑھتا ہو اور ہجر اختیار کرنے والا کمزور ہو اور یوں اس کام کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں ہجر مشروع نہیں ہو گا بلکہ بعض لوگوں کے لئے ہجر و ترک کی بہ نسبت تالیف قلب کا طریق کار زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا، جیسا کہ بعض لوگوں کے لئے تالیف کی بہ نسبت ہجر و کنارہ کشی زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے ساتھ تالیف کا طریق کار اختیار کرتے تھے اور کچھ کے ساتھ ہجر و بعد کا۔ بلکہ وہ تین صحابہ جو غزوہ میں پیچھے رہ گئے تھے ان بیشتر لوگوں سے کہیں بہتر اور افضل تھے جن کی تالیف قلب کی گئی تھی کیونکہ وہ لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے سردار تھے جن کی اطاعت و فرمانبرداری کی جاتی تھی لہٰذا دینی مصلحت یہ تھی کہ ان کی تالیف قلب کی جائے، جبکہ یہ لوگ(تینوں)مومن تھے اور مومن ان کے علاوہ بھی بے شمار تھے اس لئے ان سے ہجر روکجی کرنے سے دین کی عزت اور ہیبت قائم ہوتی تھی دوسری طرف ان کے اپنے گناہوں کی دھلائی اور صفائی بھی ہوتی تھی۔ چنانچہ یہ ویسے ہی ہے جیسے شریعت میں دشمن