کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 293
اس کا فرض بنتا ہے کہ اس کے ساتھ دوستی اور وفاداری کا رشتہ قائم رکھے چاہے وہ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کرتا ہو کیونکہ ظلم یا زیادتی سے ایمانی دوستی، ہمدردی اور موالات کے رشتے نہیں کٹ جاتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنۢ بَغَتْ إِحْدَىٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ فَقَـٰتِلُوا۟ ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ إِلَىٰٓ أَمْرِ ٱللّٰهِ ۚ فَإِن فَآءَتْ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا بِٱلْعَدْلِ وَأَقْسِطُوٓا۟ ۖ إِنَّ ٱللّٰهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ﴿٩﴾إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾کہ اگر مسلمانوں میں سے دو گروہ باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلاح و اصلاح کرا دیا کرو۔۔(آخر میں فرمایا)کہ مومن لوگ تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(الحجرات: 9)چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی باہم سرکشی کے باوجود اور ان کی باہم صلح و اصلاح کے حکم کے باوجود مسلمانوں کو بھائی بھائی ہی رکھا ہے۔ بنا بریں مومن کو سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ(ہجر کی)ان دو اقسام میں کس قدر فرق ہے کیونکہ بسا اوقات اور اکثر و بیشتر انسان کے ذہن میں یہ فرق باقی نہیں رہتا، یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ مومن سے محبت، دوستی اور وفاداری کا رشتہ استوار رہنا چاہیے، چاہے اس سے اس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ ہوا ہو، اور کافر سے دشمنی رکھنا فرض ہے چاہے وہ اس پر کتنا بھی احسان کیوں نہ کرتا ہو اور انعام و اکرام ہی سے کیوں نہ نوازتا ہو، کیونکہ اللہ رب العزت نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور کتابوں کا نزول فرمایا ہی اس لئے ہے کہ دین سارے کا سارا اللہ وحدہ لا شریک کے لئے ہو جائے اور اس بناء پر محبت و مودت اس کے(اللہ کے)دوستوں اور ذلت و اہانت اس کے دشمنوں کے لئے ہو جائے اور اجروثواب اس کے دوستوں اور سزا و عقاب اس کے