کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 292
٭ جب یہ معلوم ہو جائے تو پھر ہجر شرعی(ترک تعلقات و روگردانی)ان اعمال میں شمار ہوتا ہے جن کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے رکھا ہے اس لئے اطاعت اللہ کے لئے خالص ہونی چاہیے اور اس کے حکم کی موافقت کے دائرہ میں رہنی چاہیے، بنا بریں درست انداز اور طریقہ کار سے اللہ کے لئے خالص ہونی چاہیے۔ چنانچہ جو شخص ہوائے نفس کی بناء پر ترک تعلقات کرتا ہے یا یہ کام اس انداز سے کرتا ہے جو غیر مامور و غیر ثابت ہو تو وہ اطاعت کے ان اعمال میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ ہوتا یہ کہ کتنے ہی لوگ یہ کام ہوائے نفس کی بناء پر کر بیٹھتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی خاطر وہ ایسا کر رہے ہیں، جبکہ ذاتی پرخاش کی بناء پر ترک تعلقات تین دن سے زیادہ جائز نہیں۔۔ اس لئے کہ یہ ہجر و ترک تعلقات ذاتی امور کی خاطر تو حرام ہے تاہم ان میں سے صرف بعض امور میں اس کی اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ شوہر کو عورت کی سرکشی کی صورت میں ہجر و مفارقت کی اجازت دی گئی ہے یا جیسا کہ ترک تعلقات میں تین دن تک کی اجازت آئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے حق کی خاطر ہجر و کنارہ کشی اور ترک تعلقات اور انسان کے ذاتی حق کے لئے ترک تعلقات، دونوں میں فرق کرنا نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا اول الذکر کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دوسرے سے روکا گیا ہے کیونکہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(ج 28 ص 207-208) ٭ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ہجر، عقوبات شرعیہ کے باب میں سے ہے اور اس لئے وہ جہاد فی سبیل اللہ کی جنس سے ہے۔ یہ اس لئے روا رکھا جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ سربلند ہو اور دین سارے کا سارا اللہ رب العزت کے لئے ہو جائے، بنا بریں مومن کا فرض ہے کہ اللہ کے لئے دشمنی بھی کرے اور اللہ ہی کے لئے دوستی بھی۔ اس لئے اگر کہیں ایک بھی مومن ہو تو