کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 290
اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مشورہ لینے والے کی خیر خواہی کی خاطر حقیقت حال واضح طور پر بیان کر دے۔(ج 28 ص 219-220) ٭ اگر کوئی شخص نمازیں چھوڑ لیتا ہو یا منکرات کا ارتکاب کرتا ہو اور آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص اٹھتا بیٹھتا اور صحبت رکھتا ہے جس کی اپنی دینداری میں بھی اس کی وجہ سے فساد در آنے کا اندیشہ ہو تو اس کے سامنے اس(اول الذکر)کی صورت حال کو بیان کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کی صحبت چھوڑ دے اور اگر وہ شخص بدعتی ہو اور خلاف کتاب و سنت عقائد کا پرچار بھی کرتا ہو یا خلاف کتاب و سنت راستے یا طریقے پر گامزن ہو، اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ وہ شخص اس طرح سے لوگوں کو گمراہ کرے گا، تو لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت بیان کرنی چاہیے تاکہ وہ اس کی گمراہی سے بچے رہیں اور حقیقت حال سے آگاہ رہیں۔ یہ سب کچھ نصح و خیرخواہی اور رضائے الٰہی کی خاطر ہونا چاہیے۔ انسان کی کسی شخص کے ساتھ ذاتی پرخاش نہیں ہونی چاہیے مثلاً دونوں کے درمیان کوئی دنیوی عداوت ہو، باہمی حسد و بغض ہو یا قیادت کا جھگڑا ہو اور انسان اس بناء پر اس کی برائیاں بظاہر نصح و خیرخواہی کے لئے بیان کرتا پھرے جبکہ دل میں مقصد انتقام یا بدلہ چکانا ہو۔ یہ شیطانی حرکت ہے:((انما الاعمال بالنيات وانما لكل امرئ ما نوي))’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی ہوئی ہوتی ہے‘‘ اس بات کے بجائے نصیحت کرنے والے کا اولین مقصد ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی اصلاح کر دے اور مسلمانوں کو دین و دنیا میں اس کے ضرر سے بچائے اور کفایت کرے۔ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اس نیک مقصد کی سر انجام دہی کے لئے آسان طریقہ ممکنہ طریق اختیار کرے۔(جلد 28 ص 220-221)