کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 289
تاہم جب آدمی ظاہر طور پر منکرات کا مرتکب ہو تو پھر اس کا رد و انکار بھی برسر عام ہو گا اور اس کی کوئی برائی غیبت شمار نہ ہو گی، اس کو سبق آموز سزا دینا بھی برسر عام ہی ضروری ہو گا چاہے وہ ہجر و کنارہ کشی ہو چاہے کوئی اور سزا، مثلاً اسے سلام نہ کیا جائے، اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے، بشرطیکہ آدمی ایسا کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور اس بنیاد پر کوئی زیادہ بڑا نقصان نہ ہوتا ہو۔ اور اگر اس کی طرح کے مجرموں اور پاپیوں کو روکنے میں یہ بات مفید و سازگار ہو تو اہل خیر کے لئے یہ تک ضروری ہے کہ یہ ہجر روگردانی اس سے زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی روا رکھیں اور اس کے جنازے تک کے ساتھ نہ چلیں۔(ج 28 ص 217-218) علماء کا اس بارے میں اختلاف نہیں کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں غیبت جائز ہے۔ ایک یہ کہ آدمی فسق و فجور کے کام غیر خفیہ انداز میں کرتا ہو مثال کے طور پر ظلم، خواہش اور خلاف کتاب و سنت بدعات وغیرہ، چنانچہ اگر آدمی ظاہراً ایسے منکرات کا ارتکاب کرے تو حسب قدرت اس کا رد و انکار واجب ہے۔۔ اس سے کنارہ کشی و روگردانی بھی کرنی چاہیے اور مذمت بھی۔۔ جبکہ گناہ کو چھپانے اور خفیہ انداز سے کرنے والے کی صورتحال اس سے برعکس ہو گی۔ ایسے شخص کی پردہ پوشی فرض ہے، تاہم نصیحت اسے بھی کی جائے گی بلکہ جب اس کا حال معلوم ہو جائے تو اس سے ہجر و بعد بھی اختیار کیا جا سکتا ہے تاکہ توبہ کر لے اور برسبیل نصیحت اس کا ذکر بھی جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر آدمی سے کسی کے بارے میں شادی بیاہ، معاملہ کرنے یا گواہی قبول کرنے کے سلسلے میں مشورہ لیا جائے، اور آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اس قابل نہیں تو