کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 288
ظاہر ہو کہ وہ بدعات ہیں۔ بزرگان سلف اور ائمہ کے اس قول کی بھی یہی حقیقت و مطلب ہے کہ داعیان بدعت کی شہادت قابل قبول نہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے نہ ان سے علم لینا چاہیے اور نہ بیاہ شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ان کی سزا ہے تاآنکہ وہ اس سے باز آ جائیں۔ اسی بناء پر یہ بزرگ حضرات بدعت کے داعی و مبلغ اور غیر داعی میں فرق کرتے ہیں کیونکہ داعی و مبلغ، منکرات کا ظاہر و برسر عام ارتکاب کرتا ہے اس لئے سزا کا مستوجب ہے۔ بخلاف ایسے شخص کے جو چھپ کے کرتا ہے، اب یہ شخص بہرحال ان منافقین سے بدتر نہیں ہے جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کر لیا کرتے تھے اور ان کے پوشیدہ امور کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے تھے، حالانکہ آپ کو ان کے بیشتر لوگوں کے حال کی خبر بھی تھی۔۔ چنانچہ منکرات باطنہ(چھپی ہوئی)کے برعکس منکرات کا ارتکاب کرتا ہے اس کا رد و انکار کرنا حسب استطاعت فرض ہے۔۔ اگر آدمی علانیہ ایسا نہ کرتا ہو بلکہ چھپا کے رکھتا ہو تو اس کا بھی رد و نکار بھی چھپا کر ہی کرنا چاہیے اور پردہ پوشی بھی کرنی چاہیے۔۔ ہاں اگر اس کا ضرر متعدی ہو جائے اور دوسروں تک سرایت کرنے لگے، تو پھر تو ظاہر ہے کہ اس کی اعتداء کو روکنا ضروری ہے اور ایسی صورت میں اگر آدمی اس کو پوشیدہ انداز سے روکے مگر وہ پھر بھی نہ رکے تو پھر اسے جس طریقے سے بھی روکا جا سکتا ہے روکنا چاہیے وہ چاہے ہجر و کنارہ کشی ہو چاہے کچھ اور، بشرطیکہ یہ امر دین کے لئے مفید تر ہو۔