کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 287
٭ ہجر شرعی(کنارہ کشی اور دوری)دو طرح کی ہوتی ہے: ایک وہ جو ترک منکرات کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور دوسری وہ جو اس بناء پر سزا یا عقاب کی صورت میں ہو۔ جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ بلا ضرورت مسلمان برائی یا منکرات کی جگہ نہ جائے۔۔ بخلاف اس شخص کے جو ان کے پاس ان کا رد کرنے کے لئے جاتا ہے جو اس بارے میں بے بس ہے۔ ہجر کنارہ کشی کی جنس سے ہے۔۔ دار الکفر یا فسق کے گڑھ سے دار الاسلام اور ایمان کے ماحول کی جانب ہجرت بھی اسی باب سے ہے کیونکہ یہ ان کفار اور منافقین کے مابین قیام و رہائش سے کنارہ کشی ہوتی ہے جو ایک مسلمان کو اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کرنے دیتے۔۔ ہجر و کنارہ کشی کی دوسری قسم بطور سزا ہوتی ہے۔ اس کے تحت انسان ایک ایسے شخص سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے جس سے منکرات اور برائیاں ظاہر ہوتی ہوں اور یہ اس وقت تک رہتی ہیں جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے بھی ان تین صحابیوں سے ہجر اختیار کیا تھا جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کی آیات نازل فرمائیں۔ آپ نے ان سے یہ رویہ اس وقت اختیار کیا جب ان سے فرض عین جہاد سے کوتاہی سرزد ہوئی تھی، جبکہ جو آدمی خیر ظاہر کرتا تھا وہ چاہے منافق ہی ہوتا آپ اس سے ہجر و کنارہ کشی کا رویہ اختیار نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ یہ ہجر بطور تعزیر ہوتا ہے اور تعزیر کا مستوجب وہی شخص ہوتا ہے جس سے ترک واجبات یا ارتکاب محرمات ظاہر ہوں مثلاً ایسی بدعات کی دعوت دے جو کتاب و سنت اور اجماع سلف کے خلاف ہوں اور یہ بھی واضح اور