کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 286
کرتا ہے جس میں اسے کوئی عذر نہ رہے، تو اس کے ساتھ بھی وہی رویہ و سلوک کیا جائے گا جو اہل بدعت سے روا رکھا جاتا ہے۔۔ مسلمانوں کے سواداعظم کا مسلک یہ ہے کہ مظہرین بدعات، اور مظہرین کبائر ایسے وہ لوگ جن میں ٹیڑھ پن کی علامات ظاہر ہوں ان سے ہجر(کنارہ کشی اور دوری)اختیار کی جائے۔ تاہم وہ شخص جو ایک معصیت خفیہ کرتا ہے یا کسی بدعت غیر مکفرہ(جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا)کو چھپائے رکھتا ہے تو ایسے شخص سے ہجر(کنارہ کشی اور دوری)اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ اس کا مستوجب صرف داعی بدعت ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ ہجر ایک قسم کی سزا ہے اور سزا صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو قولی یا فعلی لحاظ سے معصیت ظاہر کرتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ہمارے سامنے خیر بھی ظاہر کرتا ہے تو ہم ظاہر پر ہی اس سے معاملہ کریں گے اور اس کے پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ منافقین کے درجے میں ہوں جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کیا کرتے تھے اور اندر کی باتیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرتے تھے۔۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے بیشتر پیشرو اور بعد کے ائمہ، جن میں امام مالک رحمہ اللہ ایسے برزجمہر شامل ہیں، داعی بدعت کی نہ روایت قبول کیا کرتے تھے اور نہ ہی ہم نشینی پسند کیا کرتے تھے، بخلاف ایسے شخص کے جو خاموش رہتا ہے۔ حدیث کی کتب صحیحہ کے مصنفین نے بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کی ہے جن پر بدعت کا الزام لگا ہے مگر وہ خاموش انداز سے اس کے قائل ہوتے تھے جبکہ داعیان بدعت سے روایت قبول نہیں کی۔(ج 24 ص 172-175)