کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 284
(ج 28 ص 470-471) چنانچہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دیگر سلف کی یہی سنت ہے، انہوں نے ہی شیعہ کو بسمیت تینوں اصناف سزا دینے کا حکم دیا تھا، ان میں سب سے ہلکی صنف مفضلہ کی ہے(جو حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کو دیگر خلفاء راشدین پر فوقیت دیتے ہیں)چنانچہ ان کو بھی حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما نے کوڑے مارنے کا حکم فرمایا تھا، جبکہ ان میں غالی تو باتفاق مسلمین قتل کے قابل ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ کے بارے میں الوہیت اور نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیںِ، مثلاً نصیری اور اسماعیلی۔۔ چنانچہ یہ سبھی کفار، یہودونصاریٰ سے کہیں بدتر کافر ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی شخص یہ اعتقاد ظاہر نہ کرے تو بھی ان منافقین میں شمار ہو گا جن کا ٹھکانہ جہنم میں درک اسفل ہے۔ اور جو شخص ظاہر و برسر عام کرے وہ تو سب کافروں سے بڑھ کر مہا کافر ہے۔ چنانچہ یہ جائز نہیں کہ انہیں مسلمانوں کے مابین رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ یا ذمہ قبول کیا جائے، ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے، نہ ان کے ذبیحے کھانا جائز ہے کیونکہ یہ مرتد ہیں اور مرتد بھی بدترین قسم کے۔ یہ لوگ اگر جمعیت فراہم کر کے رکاوٹ پیدا کریں تو ان سے قتال واجب ہے جیسے مرتدین سے قتال کیا جاتا ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نئے مسیلمہ کذاب کے حواریوں سے جنگ کی تھی۔ اگر یہ مسلمانوں کی بستیوں میں ہوں تو ان سے توبہ کرانے کے بعد بکھیر کر رکھا جائے گا اور صرف اس صورت میں مسلمانوں کے مابین بسایا جائے گا، اسلام کے وہ تمام قوانین جو مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں ان کا بھی انہیں پابند کیا جائے گا۔ اور یہ حکم صرف رافضہ ہی کے غالیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جو شخص بھی مشائخ میں سے کسی کے بارے میں غلو کرتا