کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 282
ضرورت پیش آئی تھی، یہ بحث اس لئے تھا کہ اس وقت سننے والوں کے لئے نشاندہی کی ضرورت پیش آئی تھی، یہ بحث اس صورت میں ہے جب آپ کے الفاظ میں(لفظی طور پر)یہ شامل نہ ہوتے ہوں۔(ج 28 ص 475-477) ٭ جہاں تک حروریہ ایسے خوارج یا رافضیوں وغیرہ میں سے کسی ایسے شخص کے قتل کا تعلق ہے جس پر قابو پایا جائے تو اس سلسلے میں فقہاء کے دو اقوال ہیں جو کہ دو روایات ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہیں، ان میں سے صحیح یہی ہے کہ اس صنف کے ایسے شخص کا قتل جائز ہے جو مثلاً اپنے مذہب کی پرزور دعوت دیتا ہے یا اس طرح کا اور شخص جس میں فساد ہو۔ جہاں تک ان کو کافر یا مخلد فی النار کہنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں علماء کے دو قول مشہور ہیں، یہ بھی روایات ہیں جو کہ امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہیں، یہ دونوں اقوال خوارج اور حروریہ و رافضہ میں سے پاپی قسم کے لوگوں کے بارے میں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ اقوال جن کے یہ قائل ہیں اور جن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آوردہ دین کے برعکس ہیں، کفر ہیں۔ اس طرح ان کے وہ افعال بھی جو کفار کے ان افعال کی جنس سے ہیں جنہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، کفر ہیں۔۔ لیکن جہاں تک ان کے کسی فرد کی متعین اور نشاندہی کر کے تکفیر یا تخلید فی النار کا تعلق ہے تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا تکفیر کی شروط پوری ہوتی ہیں اور موانع دور ہوتے ہیں یا نہیں، کیونکہ ہم وعد اور وعید اور تکفیر و تفسیق کی نصوص پر مبنی قول کا مطلق حکم تو لگاتے ہیں مگر کسی فرد کی نشاندہی کر کے اس وقت تک اس عموم میں اسے شامل نہیں ٹھہراتے جب تک اس نص کا مقتضی اس میں قائم نہ ہو جائے اور اس سے الٹ کوئی معارض نہ رہے۔۔ کیونکہ جب تک رسالت کا ابلاغ نہ ہو جائے اس