کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 281
کسی قابو آنے والے آدمی کے قتل کے بارے میں اگرچہ فقہاء کا اختلاف ہے مگر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بصورت امتناع ان سے قتال واجب ہے کیونکہ قتال قتل سے وسیع تر ہے۔ جیسا کہ حملہ آور دشمنوں اور اعتداء پر کمر بستہ باغیوں سے بھی قتال کیا جاتا ہے اگرچہ ان میں سے کوئی قابو آ جائے تو اسے صرف وہی سزا دی جائے گی جس کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے رکھا ہے۔ اور خوارج کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جو نصوص متواترہ ہیں، ان میں علماء نے لفظی یا معنوی لحاظ سے ان ایسے تمام اہل اھواء کو شامل کیا ہے جو شریعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت المسلمین سے خروج کرتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ تو حروریہ(خوارج)سے کہیں بدتر ہیں۔ اس سلسلے میں خرمیہ، قرامطہ، نصیریہ یا ہر وہ شخص جو کسی بشر کے بارے میں اللہ ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے یا انبیاء کے علاوہ کسی کو نبی مانتا ہے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے آمادہ جنگ ہے، ایسے تمام لوگ بطور مثال بیان کئے جا سکتے ہیں اور یہ سب لوگ حروریہ خوارج سے بدرجہا بدتر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف اس وجہ سے حروریہ خوارج کا ذکر فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظہور پذیر ہونے والی اہل بدعات کی وہ سب سے پہلی صنف تھی بلکہ ان میں سے پہلا شخص تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات ہی میں نکل چکا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کا ذکر اپنے زمانے سے قرب کی بناء پر کیا تھا۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اقدس نے اس زمانے میں وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے کئی امور کا بھی بطور خاص ذکر کیا تھا۔۔ کیونکہ یہ امور ان لوگوں میں پورے ہوتے تھے۔ اب جن لوگوں میں وہ صفات پوری ہوتی ہوں ان کو بھی انہی لوگوں کے ساتھ شمار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کی نشاندہی کی