کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 280
فرض کر رکھے ہیں مثلاً دعا و ثناء اور دیگر حقوق اور اگر اس کے منافق ہونے کا پتہ چلے، جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ایک گروہ کے نفاق کا علم ہو گیا تھا۔۔ اور جس طرح کہ مسلمانوں کو تمام رافضیوں کے نفاق(منافق)ہونے کا علم ہے۔۔ تو ایسے شخص کا نفاق کے ساتھ ذکر ہو گا، اور اگر اس سے بدعت ظاہر ہو اور یہ علم نہ ہو سکے کہ وہ منافق تھا یا مومن مخطی، تو اس کے بارے میں صرف اتنی بات کی جائے گی جو ہمارے علم میں آئی ہو۔ کیونکہ یہ تو جائز اور حلال نہیں کہ آدمی اس چیز کے پیچھے پڑے جس کا اسے علم نہیں۔ اسی طرح کسی کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ ایسی بات کرتے وقت اس مقصد کے علاوہ کوئی اور نیت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہی مقصود ہونی چاہیے کہ اللہ ہی کا حکم سربلند ہو اور دین سارے کا سارا اللہ کے لئے خاص ہو جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو شخص علم کے بغیر بات کرے یا اپنی معلومات کے برعکس غلط بیانی کرے وہ گناہ گار ٹھہرتا ہے۔(ج 28 ص 233-234) ٭ امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے اصحاب و تلامذہ میں ایک جماعت، خلاف کتاب و سنت بدعت کے داعی و مبلغ کے قتل کے جواز کی قائل ہے، یہی مسلک امام مالک رحمہ اللہ کے بیشتر تلامذہ کا ہے جن کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے قدریہ کے قتل کی اجازت فساد فی الارض کی بنیاد پر دی ہے نہ کہ ارتداد کی بناء پر۔۔ یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ فساد پھیلانے والے کا شر اگر قتل کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے ختم نہ ہو سکتا ہو تو اسے قتل کرنا بھی جائز ہے۔(ج 28 ص 346) ٭ جہاں تک خوارج اور رافضیوں کے کسی ایک شخص کا تعلق ہے جس پر قابو پا لیا گیا ہو تو اس کے بارے میں شیخین عمر و علی رضی اللہ عنہما سے اس کا قتل کرنا بھی مروی ہے، ان لوگوں میں سے