کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 279
حقیقت بیان کرنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے سلسلے میں فتنہ دو چند ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں ایمان بھی ہوتا ہے جو اپنے بقدر ان سے تعلق اور موالات کا متقاضی ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ ایسی بدعات کا شکار ہوتے ہیں جو منافقین نے برپا کی ہوتی ہیں اور دین میں فساد کا باعث بنتی ہیں۔ چنانچہ ان بدعات سے تحذیر اور خبردار کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے چاہے اس مقصد کے لئے ان لوگوں کا ذکر کرنے یا نشاندہی کرنے کی ضرورت بھی کیوں نہ پڑے، بلکہ اگر انہوں نے وہ بدعت کسی منافق سے نہ بھی لی ہو بلکہ اس بنیاد پر وہ اس کے قائل ہوں کہ وہ ہدایت ہے، یا اس میں خیر ہے یا یہ کہ وہ دین ہے، جبکہ درحقیقت ایسا نہ ہو، تب بھی ان کی حقیقت اشکار کرنا ضروری ہے۔(ج 28 ص 232-233) ٭ اسی بناء پر ایسے شخص کا حال اور حقیقت بیان کرنا بھی واجب ہے جو حدیث اور روایت میں غلطی کھا گیا ہو یا روایت اور فتویٰ میں غلطی کا مرتکب ہوا، یا زہد و عبادت میں ایسا کرتا ہو۔ اگرچہ اس بارے میں وہ اجتہاد کی غلطی پر ہی کیوں نہ ہو جس کی نہ صرف مغفرت ہو جاتی ہے بلکہ اپنے اجتہاد پر اسے اجر بھی ملتا ہے۔ اس لئے ایسے قول و عمل کو بیان کرنا واجب ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو چاہے ایسا کرنے میں اس شخص کے قول و عمل کی مخالفت ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم جس شخص کے بارے میں یہ علم ہو کہ اس نے جہاں تک اجتہاد ہو سکتا ہے وہاں اجتہاد کیا ہے تو اس کا بطور مذمت یا آثم ذکر کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی غلطی کو معاف فرمایا ہوتا ہے۔ بلکہ اس شخص کے ایمان و تقویٰ کے بقدر اس سے دوستی و موالات اور محبت بھی واجب ہے اور اس کے ان حقوق کا لحاظ و ادائیگی بھی جو اللہ نے