کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 278
یہ مسلمانوں کے لئے ہے اور یہی افضل ہے‘‘۔ امام صاحب نے یہاں یہ بات واضح کی ہے کہ موخر الذکر کا نفع و فائدہ تمام مسلمانوں کے لئے ان کے دین کی خاطر ہے جو کہ جہاد کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اللہ کے دین اور منہج و شریعت کو پاک کرنا اور اس پر یہ لوگ جس بغی و عدوان کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا رد کرنا فرض کفایہ ہے۔ اور اگر ایسے لوگ نہ ہوا کرتے جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے پھیلائے ہوئے ضرر اور شر کو رد کرنے کے لئے کھڑا کرتا ہے تو آج دین برباد ہو چکا ہوتا، اور دین کا فساد اہل حرب ایسے دشمن کے غلبے کے فساد سے کہیں بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ(موخر الذکر)لوگ اگر غلبہ حاصل کر لیں تو دلوں میں فساد پیدا نہیں کریں گے، الا یہ کہ شکست کے نتیجے میں بعد میں ایسا ہو، لیکن ان کے فساد کی بنیاد اور ابتداء دلوں سے ہوتی ہے۔(ج 28 ص 231-232) ٭ دشمنان دین دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کفار، دوسرے منافقین، دونوں ہی گروہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو جہاد کا حکم فرمایا ہے۔۔ چنانچہ اگر منافقین دین میں خلاف قرآن بدعات ایجاد کرتے رہیں، لوگوں کو ان میں پھانستے اور اشتباہ پیدا کرتے رہیں اور لوگوں کو ان کی حقیقت معلوم نہ ہو پائے تو اس کتاب میں فساد برپا ہو جائے اور دین تبدیل ہو جائے جیسا کہ ہم سے پہلے اہل کتاب کا دین اس بناء پر فساد کا شکار ہوا کہ اس میں ہونے والی تحریف کے کار پردازوں کا رد نہیں ہو سکا۔ اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں جو منافقین تو نہیں مگر ان کی باتوں میں آئے رہتے ہیں، ان کے چکر میں آ جاتے ہیں اور ان کی حقیقت ان پر واضح نہیں ہو پاتی تاآنکہ وہ ان کی بات کو حق سمجھ لیتے ہیں جبکہ وہ کتاب اللہ کے خلاف ہوتی ہے، اور اس بناء پر منافقین کی بدعات کی طرف دعوت دینے لگ جاتے ہیں تو بھی ان کی