کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 277
قتال جبکہ ان کی عدالت قائم اور باقی رہتی ہے، یا مثلاً ایسے شخص پر حد کا قیام جس نے قابو میں آنے کے بعد توبہ صحیحہ کر لی ہو۔۔ بخلاف اس شخص کے جو کسی بھی قسم کی تاویل نہ کرتا ہو۔۔ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مخلوق کی ایک بڑی تعداد دنیا میں سزا سے بچی رہتی ہے جبکہ آخرت کے لحاظ سے وہ کفار ہوتے ہیں، مثلاً وہ اہل ذمہ جو اپنے کفر پر رہتے ہوئے جزیہ دینا قبول کر لیتے ہیں یا مثلاً منافقین جو بظاہر مسلمان بنے رہتے ہیں اور اس بناء پر دنیوی لحاظ سے ان پر مسلمانوں ہی کے احکام لاگو ہوتے ہیں جبکہ اخروی لحاظ سے وہ کافر ہیں۔۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ بدلہ و جزا حقیقت میں صرف روز آخرت ہی ہو گا جو کہ دار ثواب وارد عذاب ہے، جہاں تک دنیا میں سزا و عقاب کا تعلق ہے تو وہ شریعت میں اس قدر ہے جو ظلم و عدوان کو روک سکے۔۔ جب ایسا ہے تو دنیا کی سزا آخرت کی سزا کے لئے مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے برعکس صورت حال ہے، یہی وجہ ہے کہ سلف کے بیشتر بزرگ اس بناء پر اس داعی بدعت کے قتل کا فتویٰ دیتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے کیونکہ وہ دین میں فساد برپا کرتا ہے چاہے وہ اس کے کافر ہونے کے قائل ہوں یا نہ ہوں۔(ج 12 ص 500) ٭ خلاف کتاب و سنت عقائد یا عبادات کے حاملین ایسے ائمہ بدعات کے متعلق بھی یہی ہے کہ ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہ و خبردار کرنا باتفاق مسلمین، واجب ہے۔ حتیٰ کہ جب امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نماز روزہ اور اعتکاف بکثرت کرتا ہے دوسرا اہل بدعات کا رد کرتا ہے، آپ کے نزدیک کون سا بہتر ہے؟ تو کہنے لگے: ’’اگر کوئی شخص نماز، روزہ اور اعتکاف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لئے ہے اور اگر اہل بدعات کا رد کرتا ہے تو