کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 271
وہاں وہ کسی مسلمان عالم کو کسی بناء پر غلط اجتہاد یا دور کی تاویل کی وجہ سے کافر یا فاسق حتیٰ کہ مرتکب گناہ قرار دینے کو بھی روا نہیں سمجھتے خاص طور پر اگر تاویل ان مسائل میں کی گئی ہو جو ظنیات اور اختلافی ہوں۔
٭ وہ مسلمان علماء جو دنیا میں علم کلام میں اجتہاد کر لیتے ہیں ان میں سے اگر کسی کے کلام میں غلطی سرزد ہو گئی ہے تو بھی اس کی تکفیر جائز نہیں ہے۔۔ چنانچہ جاہلوں کو مسلمان علماء کی تکفیر کا کام سونپ دینا بہت ہی بڑا جرم ہے۔۔ اصل میں اس کی بنیاد خوارج اور روافض سے جا ملتی ہے جو اپنے تئیں امور دین میں کچھ غلطیوں کی بناء پر ائمہ مسلمین کی تکفیر کرتے ہیں۔
اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علماء امت کی محض کسی غلطی یا لغزش کی بناء پر تکفیر جائز نہیں بلکہ سوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کسی کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور ترک بھی کی جا سکتی ہے اور وہ عالم جس کی کسی غلطی کی بناء پر اس کی کوئی بات ترک کرنے کے قابل ہو، ضروری نہیں کہ وہ کافر یا فاسق ہو بلکہ اسے مرتکب گناہ تک بھی قرار دیا جا سکے۔۔ اور یہ بات معلوم امور میں سے کہ وہ علماء امت جنہوں نے اس باب میں کلام کیا ہے۔۔ یعنی عصمت انبیاء کے باب میں۔۔ تو ان کی تکفیر سے ممانعت، بلکہ عموماً بھی علماء کی تکفیر کی ممانعت، چاہے وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہوں درحقیقت مقاصد شریعت میں شامل ہے۔۔ چنانچہ ظنی مسائل میں کیونکر علماء امت کی تکفیر کی جا سکتی ہے؟ پھر کیونکر جمہور علماء امت یا جمہور علماء سلف اور بزرگ ائمہ کرام کی تکفیر ہو سکتی ہے جس پر کہ اصلاً کوئی دلیل و حجت بھی نہیں ہے۔(ج 35 ص 100-104)
ایک ایسا شخص جس کا کافر ہونا معلوم ہو اہل سنت کا اس کی نسبت