کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 269
ہے، یا یہ کہ قرآن کلام الٰہی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا تھا، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو دوست پکڑا تھا، کفر ہے اور اس طرح کے دیگر اقوال بھی کفر ہیں، ائمہ اہل سنت و الجماعت کے کلام و اقوال کا یہی مطلب ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ عام تکفیر۔۔ جیسے مثلاً وعید عام۔۔ تو یہ ضروری ہے کہ انسان مطلق اور عمومی طور پر اس کا قائل ہو۔ تاہم جہاں تک کسی شخص کو متعین یا اس کی نشاندہی کر کے اس پر کافر یا پکا جہنمی ہونے کا حکم لگانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے الگ سے موجود اور متعین دلیل ہونا ضروری ہے کیونکہ موخر الذکر حکم کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا مطلوبہ شروط پوری ہوتی ہیں اور موانع زائل ہوتے ہیں یا نہیں۔(ج 12 ص 497) ٭ جب اس بات(یعنی پچھلے پیروں میں تکفیر کے جو قواعد و ضوابط بیان ہوئے ہیں)کا علم ہو جائے تو اگرچہ اس طرح کے مذہب کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے مگر پھر بھی ان جاہلوں(یعنی مخالفین مذہب اہل سنت)میں سے کسی کی نشاندہی کر کے تکفیر کی جلدی نہیں کرنی چاہیے یعنی کسی کا تعین کر کے اس پر کافر ہونے کا حکم نہ لگایا جائے تاآنکہ اس پر حجت رسالت قائم نہ کر لی جائے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ وہ انبیاء کے برعکس چل رہا ہے۔ تکفیر معین کے سلسلے میں یہ اصول تمام لوگوں کے بارے میں ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ ان بدعات میں سے بدعات، یعنی بدعات سے کہیں بڑھ کر شدید اور گھناؤنی ہوتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض بدعتی بعض دوسرے بدعتیوں سے کہیں بڑھ کر ایمان سے کورے اور تہی دامن ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی کے لئے یہ روا نہیں کہ مسلمانوں میں کسی کی تکفیر کرے اگرچہ وہ غلطی اور کج روی پر ہی کیوں نہ ہو، تاآنکہ