کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 268
نہیں رہتا کہ تکفیر مطلق اور تکفیر معین لازم و ملزوم نہیں ہیں الا یہ کہ مطلوبہ شروط پوری ہو جائیں اور موانع بھی باقی نہ رہیں۔ اس امر کی نشاندہی اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام جنہوں نے اس طرح کے عمومات کا اطلاق فرمایا ہے، نے ان بیشتر افراد کی فرداً فرداً اور بعینہٖ تکفیر نہیں کی جو متعلقہ فکر یا قول کے قائل رہے تھے۔۔ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام کے ان اقوال و اعمال سے صاف صراحت ہوتی ہے کہ وہ جہمیہ کو فرداً فرداً کافر نہ کہتے تھے جن کا مذہب تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور یہ کہ آخرت میں دیدار الٰہی نہ ہو گا۔ امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کی فرداً فرداً بھی تکفیر کی ہے اب ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں منقول ہوئی ہوں۔۔ مگر یہ بات محل نظر ہے۔۔ اور یا یہ صورت رہ جاتی ہے کہ اس مسئلہ کو تفصیل پر محمول کیا جائے اور حقیقت کو کھولا جائے۔ چنانچہ یہ کہا جائے گا جن لوگوں کی امام صاحب نے بعینہٖ تکفیر کی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس تکفیر کی دلیل قائم ہو چکی تھی یعنی تکفیر کی شروط پوری ہو چکی تھیں اور موانع نہ رہے تھے، اور جن لوگوں کی بعینہٖ تکفیر نہ کی تھی جبکہ عمومی انداز میں تکفیر کا اطلاق تو بہرحال کرتے ہی تھے، تو وہ اس لئے کہ ان خاص لوگوں کے حق میں فرداً فرداً وہ شروط پوری نہ ہوتی تھیں۔(ج 12 ص 487-489) ٭ اس گفتگو سے دو نہایت اہم اصول ثابت ہوتے ہیں: ایک یہ کہ علم، ایمان اور ہدایت صرف وہی کچھ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ علی الاطلاق کفر ہے، چنانچہ صفات الٰہی کی نفی کفر ہے اور اس بات کی تکذیب کہ اللہ تعالیٰ آخرت کے دن دیدار کرائے گا، یا یہ کہ وہ عرش پر