کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 267
سلیمہ بھی اس پر متفق ہیں۔(ج 3 ص 354) ٭ کسی کے لئے یہ روا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کی تکفیر کرے چاہے وہ غلطی یا کج روی پر ہی کیوں نہ ہو، تاآنکہ اس پر حجت قائم نہ کر لی جائے اور دلیل واضح نہ کر دی جائے۔ کسی شخص کا مسلمان ہونا ایک بار قطعی طور پر ثابت ہو جائے تو یہ حکم شک کی بناء پر زائل نہیں ہو گا بلکہ جب تک اقامت حجت نہ ہو جائے اور شبہات دور نہ ہو جائیں اس وقت تک زائل نہ ہو گا۔(ج 12 ص 466) ٭ یہ جو اہل سنت کے مابین جھگڑا ہے، جہمیہ کے افراد کو فرداً فرداً کافر قرار دینے کا تو اس کا سبب دلائل کا باہم تعارض ہے کیونکہ یہ تو دلائل واضح ہیں کہ ان پر کفر کے اطلاق کا احکام کیا جائے مگر جہاں تک ان کو فرداً فرداً کافر کہنے کا تعلق ہے تو ان میں ایسے افراد بھی ہیں جو جہمیہ کے اقوال کے قائل تو ہیں مگر ایمان میں ان کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے کافر ہونے میں بھی کچھ امور مانع ہوتے ہیں۔ اس بناء پر ان افراد کے حق میں دونوں دلیلیں باہم متعارض نظر آتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان حضرات کو ائمہ کرام کے اقوال میں الفاظ عموم کو سمجھنے میں وہی مغالطہ ہوتا ہے جو پہلے لوگوں کو شرعی نصوص میں موجود الفاظ عموم کو سمجھنے میں لگا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ ائمہ و سلف کا کوئی قول سنتے ہیں کہ فلاں اور فلاں بات کا قائل کافر ہے تو سننے والا یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس لفظ(عام)کی زد میں ہر وہ شخص(فرداً فرداً)شامل ہے جو اس بات کا قائل ہوا ہے۔ جب کہ اس بات کو فراموش کر جاتے ہیں کہ(کسی شخص کو متعین کر کے)کافر قرار دینے کی کچھ شروط ہیں اور کچھ موانع ہیں جو ہو سکتا ہے بعض اوقات کسی ایک خاص شخص کے بارے میں پورے نہ ہوتے ہوں، اور یہ بھی ان کے ذہن میں لازم