کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 266
صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر لیتے تھے مثلاً دیدار الٰہی اس طرح کے دیگر امور۔(ج 35 ص 165-166) ٭ کوئی قول یا اعتقاد تو کفر ہی ہوتا ہے مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ یا حج کی فرضیت سے انکار یا مثلاً زنا، شراب، جوئے یا محرمات سے نکاح کو جائز اور روا کر لینا، مگر جہاں تک اس کے کہنے والے کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے اس کو حکم شرعی نہ پہنچ پایا ہو اور ایسی صورت میں انکار کرنے والا کافر قرار نہیں پاتا۔ مثلاً جو شخص ابھی بالکل نیا نیا اسلام لایا ہے یا دور دراز کی دیہاتی یا جنگلی زندگی گزارتا رہا ہے اور وہاں اسے شریعت کے احکام نہ پہنچ پائے ہوں، ایسا شخص اگر کسی امر کے بارے میں نہ جانتا ہو کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے اور اس بناء پر اس کا انکار کر لے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔ جہمیہ کے اقوال بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، چنانچہ یہ اقوال رب تعالیٰ کی حقیقت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے نازل کئے ہوئے کلام کے انکار پر مبنی ہیں، پھر مندرجہ ذیل امور ان کے مذہب کی سنگینی کود و آتشہ کر دیتے ہیں: 1۔ کتاب و سنت اور اجماع سے ان کے مذہب کے خلاف بے شمار نصوص ملتی ہیں جو کہ مشہور بھی ہیں مگر یہ لوگ تحریف کے ذریعے ان کو رد کرتے ہیں۔ 2۔ ان کے مذہب کی تان یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ کائنات کے صانع کا انکار کر دیا جائے۔ ہاں یہ ہے کہ ان میں سے ایسے لوگ ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ان کے مذہب کا یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ صانع کا انکار کر دیا جائے۔ اب جس طرح ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا اقرار کیا جائے اس طرح کفر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا انکار ہو۔ 3۔ یہ لوگ ان باتوں کے بھی انکاری ہیں جن پر ملتوں کا اتفاق ہے بلکہ اہل فطرت