کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 265
اس وقت تک اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص نے وہ نصوص سن ہی نہ رکھی ہوں، یا سنی بھی ہوں مگر اس کے نزدیک وہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچتی ہوں، یا اس کے خیال میں کچھ دوسری دلیلیں ان نصوص کے الٹ پڑتی ہوں جس کی بناء پر ان کی تاویل ضروری سمجھتا ہو۔ اس قسم کے گمان رکھنے میں چاہے وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہو مگر اسے متعین کر کے حکم نہیں لگایا جائے گا۔(ج 3 ص 229-231) ٭ اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ وہ قول جو کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے کفر ہو اس کو کفر ہی کہا جائے گا مگر اس کا اطلاق اس طریقے سے ہو گا جو شرعی دلائل سے ثابت ہے۔ کیونکہ کفر و ایمان بھی ان احکام میں سے ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لئے جاتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے گمان اور ہوائے نفس کارفرما ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو(کفر کی)فلاں بات کہے اس پر کفر کا حکم بھی لگایا جائے۔ تاآنکہ اس کے بارے میں تکفیر کی شروط پوری نہ ہو جائیں اور موانع باقی نہ رہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص شراب یا سود کو حلال کہے تو ہو سکتا ہے وہ بالکل نومسلم ہو یا اس نے کہیں دور دراز کے دیہات میں زندگی گزاری ہو، یا ہو سکتا ہے اس طرح کا کوئی شخص بات سنے تو اسے اوپری یا نئی لگے اور وہ سمجھ رہا ہو کہ قرآن اور حدیث میں ایسا نہیں آیا ہے۔ جس طرح کہ سلف میں بھی بعض حضرات کوئی ایسی بات سنتے جو انہیں نئی اور اوپری لگتی تو اس وقت تک انہیں اس کا یقین نہ آتا جب تک ان کے ہاں یہ ثابت نہ ہو جاتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ایسا کہا ہے، اور جس طرح کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بعض باتوں میں شک و تردد رہتا تھا تاآنکہ ان کے بارے میں وہ رسول اکرم