کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 264
کفر، فسق اور معصیت کا حکم لاگو کیا جائے، تاوقتیکہ اس بات کا علم نہ ہو جائے کہ اس پر وہ حجت رسالت قائم ہو چکی ہے جس کی مخالفت کرنے والا آدمی کافر یا فاسق یا عاصی قرار پاتا ہے۔ یہاں میں اس بات کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی خطا کو معاف کر دیا ہے اور اس خطا میں اخبار و اقوال ایسے(اعتقادی)مسائل بھی شامل ہیں اور عملی مسائل بھی۔۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فلاں فلاں اعتقاد یا مذہب رکھنے والے پر سلف اور ائمہ نے تکفیر کا اطلاق کیا ہے تو یہ یقیناً برحق ہے، مگر اطلاق اور تعین میں فرق کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ بڑے اور اصولی مسائل میں سے پہلا مسئلہ ہے جس پر امت میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔۔ یعنی مسئلہ وعید۔۔ چنانچہ وعید کے بارے میں قرآنی نصوص میں اطلاق پایا جاتا ہے، مثلاً:﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ظُلْمًا﴾’’وہ لوگ جو یتیموں کا مال ظلم و زیادتی سے کھا جاتے ہیں‘‘ اس طرح کی تمام نصوص ایسی ہیں کہ جو ایسا کرے گا اسے یہ عذاب ملے گا یا اس سزا کا مستوجب ہو گا۔ یہ نصوص عموماً مطلق ہیں، ایسا ہی حال اس قول کا ہو گا جس سلف میں سے کسی نے کہا ہو کہ جو شخص ایسا کہے اس کا یہ حکم ہے۔ مزید برآں جہاں تک متعین شخص کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں وعید کا حکم توبہ کی بناء پر بھی ٹل سکتا ہے، نیکیوں کی بناء پر بھی جو کہ برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، مصائب کی وجہ سے بھی ایسا ہو سکتا ہے جو کہ گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں اور ایسی شفاعت کے ذریعے بھی جسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے۔ تکفیر بھی وعید ہی میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اگرچہ اس کا مطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلانا ہے تاہم ایسی کوئی بات کسی ایسے شخص سے بھی صادر ہو سکتی ہے جو ابھی بالکل نومسلم ہو یا کہیں دور دراز کے دیہات وغیرہ میں رہتا ہو۔ ایسا آدمی اگر کسی بات کا انکار کر رہا ہے تو