کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 262
بیشتر اہل علم کا یہی قول ہے، دوسرا یہ کہ کفر تو ہے مگر ملت سے خارج نہیں کرتا۔ اس بناء پر خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بات علماء نے بطور تغلیط کی ہے۔ اسی طرح ہمارے مذہب کے متاخرین میں ان لوگوں کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ ان میں سے جس کی تکفیر کی جائے، آیا وہ مخلد فی النار ہو گا یا نہیں؟ بیشتر بزرگ اس پر تخلید فی النار کے حکم کا اطلاق فرماتے ہیں۔ یہی بات بات متقدمین علماء حدیث کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے جن میں ابو حاتم اور ابو زرعہ رحمہما اللہ ایسے حضرات شامل ہیں جبکہ بعض ان کے مخلد فی النار ہونے کے بارے میں توقف کرتے ہیں۔(ج 13 ص 486-487)
(3) بدعات جن کے حاملین بلا اختلاف کافر ہیں
٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور عام ائمہ سنت کے مذہب میں مشہور قول کی رو سے جہمیہ کافر قرار پاتے ہیں جو کہ صفات رحمٰن کی تعطیل کرتے ہیں، کیونکہ ان کا یہ مذہب انبیاء و رسل پر نازل شدہ کتب کی قطعی طور پر منافی اور صریحاً الٹ ہے، ان کے مذہب کی حقیقت کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ خالق کا اصلاً انکار ہی کر دیا جائے۔ اب ظاہر ہے اس میں رب کا قطعی انکار بھی شامل ہے۔ اسی وجہ سے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم لوگ یہود و نصاریٰ کا کلام تو بیان کر سکتے ہیں مگر جہمیہ کی ایسی ایسی زبان درازیاں ہیں کہ انہیں نوک زبان پر نہیں لایا جا سکتا۔ کئی ائمہ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ یعنی جہمیہ یہودونصاریٰ سے بڑھ کر اور بدتر کافر ہیں۔ اسی بناء پر اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں جو قرآن کو مخلوق مانتا ہے اور یہ مذہب رکھتا ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار نہیں ہو گا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ عرش پر نہیں ہے اور نہ ہی اسے علم ہے، نہ قدرت، نہ رحمت، نہ غضب اور نہ ہی اس طرح کی کوئی اور