کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 261
(3) بدعات جن کے حاملین کی تکفیر میں اختلاف ہے
٭ جہاں تک قدریہ کے ان لوگوں کا تعلق ہے جو علم الٰہی کا اقرار کرتے ہیں اور وہ روافض جو غالی نہیں، اور جہمیہ و خوارج تو ان کی تکفیر کے بارے میں ان سے(امام احمد رحمہ اللہ)سے دو روایتیں ہیں۔ [1]
ان کے مطلق قول کی حقیقت کا یہی مطلب ہے جبکہ امام احمد رحمہ اللہ پر، علم الٰہی کے اقرار کرنے والے قدریہ کی تکفیر سے توقف کا رجحان بھی غالب رہا ہے۔ یہی موقف ان کا خوارج کے بارے میں تھا جبکہ ان کا یہ بھی قول ہے کہ میں نہیں جانتا کہ خوارج سے بدتر بھی کوئی لوگ ہوں گے۔۔ کافر کو جو کافر نہیں کہتا اس کے بارے میں بھی امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں، صحیح روایت یہ ہے کہ کافر نہیں ہوتا جو مطلقاً کسی کافر کو کافر نہیں کہتا حالانکہ یہ صریح غلطی ہے۔ جہمیہ کے بارے میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ، یوسف بن اسباط رحمہ اللہ، امام احمد کے بعض شاگردوں اور دیگر ائمہ کا موقف ہے کہ وہ ان بہتر فرقوں میں شامل نہیں جن میں امت کے بٹنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ بلکہ ان بزرگوں کے ہاں ان فرقوں کے اصول خوارج، شیعہ، مرجئہ اور قدریہ ہیں یہی امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ماثور ہے اور یہی عام ائمہ سنت و حدیث سے ماثور ہے، ان کا قول ہے کہ جو قرآن کو مخلوق مانتا ہے وہ کافر ہے، جو کہتا ہے کہ روز آخرت اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ ہو گا یا اس طرح کا دیگر عقیدہ رکھتا ہے وہ کافر ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ابو النصر السجزی ان کے بارے میں دو اقوال ذکر کرتے ہیں ایک یہ کہ یہ کفر ہے اور ملت سے خارج کر دیتا ہے اس کے بارے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
[1] امام احمد رحمہ اللہ کے اس قول کی تحقیق و تفصیل جہمیہ کے بارے میں آگے آئے گی کیونکہ انہوں نے بعض کی تکفیر کی ہے اور بعض کی نہیں، اس لیے کچھ لوگ مغالطے کا شکار ہوئے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں حالانکہ وہ ان پر مطلق کفر کا حکم لگاتے ہیں۔