کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 260
اور تفضیل(علی رضی اللہ عنہ)ایسے مذاہب میں سے بعض مشہور و معروف بزرگ بھی منسوب رہے ہیں تو اس لئے مشہور ائمہ(اہل)سنت نے مرجئہ اور مفضلہ کی مذمت میں اس لئے گفتگو کی ہے تاکہ لوگ ان کے مذہب سے دور رہیں۔(ج 3 ص 357)
٭ جہاں تک مرجئہ کا تعلق ہے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اقوال و نصوص میں ایسا کوئی تعارض نہیں پایا جاتا کہ وہ ان کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔ ان کی بدعت فروع میں فقہاء کے اختلاف کی جنس میں شمار ہوتی ہے، ان کے کلام اور گفتگو میں سے بہت سی باتیں تو صرف لفظی بحث سے تعلق رکھتی ہیں یا ناموں میں اختلاف ہے، چنانچہ ان مسائل کی بحث کو باب الاسماء کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ بے شمار فقہاء کے اختلاف میں ہوتا ہے لیکن تعلق اصل دین(عقائد)سے رکھتا ہے، اس بناء پر اس میں نزاع کرنے والے کو بدعتی(مبتدع)کہا جاتا ہے۔(ج 12 ص 485)
٭ یہی مسئلہ(مفضلہ)شیعہ کے ان لوگوں کا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ بلا اختلاف اقوال ان کی تکفیر نہیں کرتے کیونکہ یہ مذہب فقہاء کی ایک تعداد کا بھی رہا ہے، اگرچہ ان کو اہل بدعت میں شمار کیا جا سکتا ہے۔(ج 12 ص 386)
٭ جہاں تک سلف اور ائمہ سنت کا تعلق ہے تو ان میں مرجئہ اور شیعہ مفضلہ کی عدم تکفیر میں کوئی اختلاف نہیں، اور نہ ہی اس طرح کی دیگر بدعتوں کے بارے میں، امام احمد رحمہ اللہ کے ہاں بھی بلا اختلاف اقوال یہ ملتا ہے کہ ان لوگوں کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔(ج 3 ص 351)