کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 256
تھا اور طالوت نے لبید بن الاعصم سے لیا تھا، یہ وہی جادوگر تھا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا۔(ج 5 ص 20)
٭ جہم بن صفوان کا مذہب تھا کہ ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے چاہے زبان سے بھی نہ بھی ادا کیا جائے۔ یہ قول امت کے کسی عالم یا امام سے منسوب نہیں بلکہ امام احمد، وکیع اور ان جیسے دیگر ائمہ نے ایسا قول کہنے والے کو کافر کہا ہے۔(ج 13 ص 47)
٭ اس مذہب کے بانی کو جعد بن درہم کہا جاتا ہے۔ اسے امیر وقت خالد بن عبداللہ القسری نے عید قربان کے روز ذبح کیا تھا۔۔ اس سے یہ مذہب جہم بن صفوان نے لیا، اسے سلمہ بن احوذ نے خراسان میں قتل کیا۔ جہمیہ کا مذہب اسی سے منسوب ہے جو کہ صفات الٰہی کی نفی پر مشتمل ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ روز آخرت اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ ہو سکے گا نہ ہی وہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے نہ اس کو علم ہے نہ زندگی، نہ قدرت اور نہ اس قسم کی کوئی دوسری صفت، قرآن کو یہ لوگ مخلوق مانتے ہیں۔
٭ پھر معتزلہ میں سے عمرو بن عبید کے ساتھی اور تلامذہ اس مسئلہ میں جہم بن صفوان کے ہم مذہب ہو گئے اور یوں اپنے مذہب میں مسئلہ تقدیر وغیرہ کی بابت ایک نئی بدعت کے اضافہ کا باعث بنے۔(ج 12 ص 502-503)
٭ معتزلہ کے اصول کل پانچ ہیں جنہیں وہ توحید، عدل، منزلہ بین المنزلتین، انفاذ الوعید، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نام دیتے ہیں۔
لیکن ان کے ہاں توحید کا مطلب ہے نفی صفات۔۔
عدل کے معنی میں قدر یعنی اللہ تعالیٰ کا بندوں کے افعال کا خالق ہونے، پیش آنے والی