کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 255
(الجماعۃ)اور سواداعظم کو حشو کا نام دیا جیسا کہ رافضی ان کو جمہور کا نام دیتے ہیں۔ حشو الناس کا مطلب ہے عام لوگ یا جمہور لوگ جو کہ چند لوگ یا خاص بلند پایہ لوگ کے برعکس لفظ ہے، یہ کہنا کہ حشو الناس میں سے ہے(جیسا کہ معتزلہ اہل سنت کو کہتے ہیں)ایسا ہی جیسا کہ یہ کہنا کہ یہ جمہور میں سے ہے(جیسا کہ شیعہ اہل سنت کو نام دیتے ہیں)سب سے پہلے جس نے یہ کلام شروع کیا وہ عمرو بن عبید تھا جس نے کہا تھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حشوی تھے۔ چنانچہ معتزلہ مسلمانوں(الجماعۃ)کو حشو کہتے ہیں اور رافضی ان کا نام جمہور کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔(ج 30 ص 185)
٭ تاہم سادہ ’’قدریہ‘‘ لوگ تو ان سے۔۔ یعنی رافضیوں۔۔ بدرجہا بہتر ہیں اور ان کی نسبت کتاب و سنت سے کہیں قریب تر بھی، لیکن قدریہ کے معتزلہ یا جہمیہ یا اس طرح کا مزید کوئی مذہب رکھنے والے لوگ جو بسا اوقات اپنے مخالف کی تکفیر کرتے ہیں اور مسلمانوں کے اموال کو روا اور مباح قرار دے لیتے ہیں تو وہ خوارج کے قریب ہو جاتے ہیں۔(ج 3 ص 357)
٭ صفات الٰہی کی تعطیل کا جو مذہب ہے، یہ اصل میں یہود اور مشرکین کے تلامذہ سے ماخوذ اور صائبین کی گمراہی کا پرتو ہے۔ وہ سب سے پہلا شخص جسے تاریخ اسلام نے اس مذہب کا حامل قرار دیا ہے۔۔ کہ اللہ تعالیٰ حقیقت میں عرش پر نہیں۔۔ اور استواء سے مراد استیلاء وغیرہ ہے۔ وہ جعد بن درہم تھا۔ یہ مذہب اس سے جہم بن صفوان نے لیا اور عام کرنا شروع کر دیا، چنانچہ یہ مذہب جہمیہ کے نام سے منسوب ہو گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جعد نے یہ عقیدہ ابان بن سمعان سے لیا تھا جس نے اسے طالوت ابن اخت لبید بن الاعصم سے لیا