کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 254
يقول يا قوم غضوا عنهم الابصار
ترمي النسوان و تزعق معشر الحضار
اطفوا الطريق و بيدك قد رميت النار
اللہ تعالیٰ ستارے تخلیق کرتا ہے، ان میں چاند صورتیں بھی ہوتی ہیں پھر کہتا ہے خبردار ان کی طرف دیکھنا منع ہے۔ عورتیں نینوں کے تیر چلاتی ہیں اور حاضرین کو مدہوش کئے دیتی ہیں، ادھر تو فرماتا ہے آگ بجھا دو اور خود آگ بھڑکاتا ہے۔
٭ اسی طرح کی اور بہت باتیں ہیں جن سے کہنے والے کا کفر اور قتل لازم آتا ہے۔(ج 8 ص 226-260)
٭ معتزلہ کا جو فرقہ ہے وہ صفات کی نفی کرتا ہے یوں جہمیہ کے مذہب کے قریب ہے۔ دوسری طرف قدر کی نفی کرتا ہے۔ اس لئے اگرچہ امرونہی کی بے انتہاء تعظیم کرتے ہیں، وعد اور وعید کو بڑھا چڑھا کر اور مبالغہ کر کے پیش کرتے ہیں مگر قدر کو جھٹلاتے ہیں اس لحاظ سے ان میں اس نوع کا شرک پایا جاتا ہے۔ ایک آدمی ایک طرف اگر قدر کا انکار کرتا ہے مگر اس کے ساتھ امرونہی اور وعد و وعید کا اقرار کرتا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو ایک طرف قدر کا اقرار تو کرتا ہے مگر دوسری طرف امرونہی اور وعد و وعید کا انکار کرتا ہے۔۔ چنانچہ یہ صوفیاء جو امرونہی کے منکر ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ تقدیر کو زوروشور سے پیش کرتے ہیں، قدریہ، معتزلہ وغیرہ سے کہیں بدتر ہیں کیونکہ وہ مجوس سے ملتے ہیں اور یہ مشرکین سے ہیں۔(ج 3 ص 103-104)
٭ اس لفظ کی بدعت سب سے پہلے معتزلہ نے ایجاد کی جنہوں نے مسلمانوں کی جماعت