کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 252
بناء پر کہتے ہیں:﴿لَوْ شَاءَ اللّٰهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ﴾’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کر سکتے اور نہ ہی ہمارے آباؤ اجداد اور نہ ہی ہم اللہ کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے کوئی حرام ٹھہراتے۔‘‘ ان لوگوں کی نوبت شریعتوں اور امرونہی کی تعطیل تک جا پہنچتی ہے تاہم تمام مخلوقات کے بارے میں ربوبیت عامہ کا اقرار رکھتے ہیں اور بھی کہ زمین پر چلنے والی کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں جسے اللہ نے چوٹی سے پکڑ نہ رکھا ہو:((وما من دابة الا هو اللّٰه اخذ بناصيتها))صوفیہ اور فقیر درویش لوگوں کی اکثریت، اعتقاد میں یا بزبان حال اسی مذہب کا شکار ہوتی ہے تاآنکہ تجاوز کرنے والے یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ محرمات کو حلال کر لیتے ہیں واجبات کو ساقط اور عقوبات کو معاف ٹھہرا لیتے ہیں۔۔ اس مذہب کے غالی لوگ بسا اوقات تمام موجودات کو عین، اللہ کی ذات کہہ دیتے ہیں، اپنے اور دوسروں کے گناہوں کو یہ کہہ کر جائز ثابت کرتے ہیں کہ یہ تقدیر اور ارادہ الٰہی کے عین مطابق ہے، پھر جب یہ نصاریٰ کے مذہب کا پرتو ہے، اور نصاریٰ نے اسے شرک سے درآمد کیا ہے، تو اس لئے یہ لوگ بھی جو شرع سے بظاہر متعارض تقدیر کو بطور بہانہ اور حجت پکڑتے ہیں تو مشرکین ہی کی پیروی کرتے ہیں۔۔
دوسرا گروہ(قدریہ مجوسیہ)جو خلق میں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں جس طرح کہ پہلے لوگوں نے عبادت میں اس کے شریک ٹھہرائے تھے، چنانچہ ان کا مذہب ہے کہ خیر کا خالق اور ہے اور شر کا خالق اور۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے نہیں ہوتے بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شاید اسے ان کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔۔ اسی بات کو بزعم خویش وہ عدل سمجھتے ہیں پھر اس کے ساتھ وہ صفات کی نفی کو بھی