کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 250
ہے اور بندہ مجبور محض ہے)بایں طور اللہ کے اولیاء و اعداء میں بھی کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس کی پسند ناپسند میں کوئی فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دو ایک ایسے امور میں جو فرق کیا ہے وہ اس کی مشیت سے ہے ایک کا حکم دیتا ہے اور دوسرے سے روک لیتا ہے۔ اس بناء پر یہ لوگ شرک و توحید، ایمان و کفر، طاعت و معصیت اور حلال و حرام ایسے فرق و امتیاز کا بھی انکار کر بیٹھے۔۔ یہ لوگ اللہ کی حکمت و عدل کے انکاری تھے جبکہ وہ لوگ اس کی قدرت و مشیت یا قدرت و مشیت و علم کے انکاری تھے۔ اول الذکر شرک ربوبیت میں مجوس کے ہم پلہ ہو گئے کیونکہ غیر اللہ کو(افعال کا)خالق سمجھتے تھے جبکہ ثانی الذکر مشرکین کے ہم پلہ ہو گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور غیراللہ کی عبادت میں ان کے ہاں کوئی فرق نہ رہا تھا بلکہ جس طرح اللہ کی عبادت کو جائز سمجھتے تھے اسی طرح غیراللہ کی عبادت کو بھی روا رکھتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ﴿لَوْ شَآءَ ٱللّٰهُ مَآ أَشْرَكْنَا﴾’’اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے‘‘۔ ان لوگوں کی توحید زیادہ سے زیادہ مشرکین کی توحید ایسی تھی جو توحید ربوبیت کہلاتی ہے، رہی توحید الوہیت جس میں امرونہی آتے ہیں اور یہ کہ اللہ کو جو پسند ہوتا ہے اس کا حکم فرماتا ہے اور جو ناپسند ہوتا ہے اس کی نہی فرماتا ہے تو اس توحید کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں۔ اس بناء پر یہ لوگ اتباع اھواء اور شرک و انارکی میں معتزلہ سے کہیں آگے بڑھے ہوئے ہیں، ان کے متکلمین اور زاہدین کی کمند یہاں جا ٹوٹتی ہے کہ بتوں تک کی عبادت کر لی جائے اور یہ کہ صاحب معرفت نیکی کے استحسان(اچھا سمجھنے)اور برائی کو برا خیال کرنے دونوں سے بلند و ماوراء اور بے نیاز ہو جاتا ہے۔
چنانچہ قدریہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا(باہم)اثبات ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو جو کام اس نے کیا ہے اس کی بجائے کوئی اور کام کرتا، اب جب وہ