کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 249
منزلہ بین المنزلتین، اس ایک بات میں معتزلہ خوارج سے متمیز رہے باقی تمام اقوال میں وہ ان کے ہم خیال و ہم مشرب رہے۔(ج 13 ص 36-38)
٭ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری دور میں قدریہ کی بدعت نے جنم لیا۔ اس سے بیشتر خوارج اللہ کے ’’حکم شرعی‘‘ کے بارے میں کلام کرتے تھے اس کے امرونہی، اور نتیجتاً وعد اور وعید، اس کے موافق و مخالف اور کافر و مومن کے بارے میں رائے زنی کرتے تھے، یہ مسائل ’’مسائل اسماء و احکام‘‘ کہلاتے تھے۔ تحکیم کے مسئلے میں پڑنے کی وجہ سے خوارج کو محکمہ کا نام بھی دیا گیا، چنانچہ جب کوئی شخص کہتا کہ لا حکم الا للہ تو کہا جاتا یہ محکم ہے یعنی حکم اللہ کی بحث و نقاش میں پڑا ہوا ہے۔ خوارج شرع الٰہی میں باطل طریقے سے بحث و جدال کرتے تھے اور قدریہ، قدر الٰہی باطل میں طریقے سے یہ کام کرتے تھے۔
ان کی اصل گمراہی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ قدر شرع سے متعارض قسم کی کوئی چیز ہے۔ بنا بریں ان کے دو گروہ ہو گئے تھے ایک گروہ شرع کو غایت درجے کی فوقیت دیتا تھا اور اس بناء پر امرونہی، وعد اور وعید، اللہ کی محبت و خوشنودی کا باعث بننے والے افعال کی اتباع اور اس کی کراہت اور ناپسندی کا سبب بننے والے افعال کے ترک و پرہیز کو بے انتہاء اہمیت دیتا تھا اور یہ سمجھتا یہ تھا کہ شرع اور قدر کو ایک ساتھ رکھنا ناممکن ہے۔۔ ایک یہ گروہ تھا جو شرع کو برتر و بالا کرتا اور اس بناء پر قدر کی تکذیب و نفی کرتا تھا یہ نفی بعض اوقات جزوی بھی ہوتی تھی۔ جبکہ دوسرا گروہ قدر کو برتر و بالا سمجھ کے شرع کی باطنی یا حقیقی طور پر تکذیب و نفی کرتا ہے، ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ نفس امر میں اللہ نے جس کام کا حکم فرمایا ہے اور جس کام سے روکا ہے ان کے مابین کوئی فرق نہیں، یہ سب کچھ ایک ہی ہے(کہ دونوں اللہ تعالیٰ ہی کراتا