کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 248
ساتھ جہم اسماء اور صفات کی بھی نفی کرتا تھا۔ اس کا یہ قول ذکر کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو کوئی شئے کہا جا سکتا ہے نہ اس کو کوئی دوسرا ایسا نام دیا جا سکتا ہے جو بندوں کو دیا جا سکے سوائے قادر کے کیونکہ بندہ قطعاً قادر نہیں کہ بندہ کسی قدرت و اختیار کا مالک نہیں ہے۔ اس سے بیشتر خوارج، اہل قبلہ میں سے گناہ گار لوگوں کی تکفیر کا مذہب اپنا چکے تھے، ان کے بارے میں ان کا مذہب تھا کہ وہ کفار اور مخلد فی النار ہیں۔ لوگوں نے اس مسئلہ میں بحث و جدال شروع کر دیا جس میں قدریہ نے بھی رائے زنی شروع کر دی۔ یہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ہوا جب عمرو بن عبید اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اہل ذنوب نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی کافر، بلکہ منزلۃ بین المنزلتین(دونوں کے بیچ کچھ)اور مخلد فی النار ہیں۔ چنانچہ اس بات میں وہ تو خوارج کے ہم خیال تھے کہ اہل ذنوب(گناہ گار)مخلد فی النار ہیں اور یہ کہ ان میں اسلام اور ایمان نام کی کوئی شئے نہیں ہے، تاہم ان کو کفار بھی نہ کہتے تھے۔ پھر لوگ یہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے حلقے سے، جس میں قتادہ اور ایوب سختیانی رحمہما اللہ شامل تھے، اعتزال(علیحدگی)اختیار کر گئے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد سے ان کا نام معتزلہ پڑ گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ انہیں یہ نام قتادہ رحمہ اللہ نے دیا تھا۔ اب لوگوں میں دین کے اسماء اور احکام کی بابت تنازعہ و اختلاف شروع ہو گیا اور مسلم و مومن، کافر و فاسق اور ان کے دنیوی و اخروی احکام کی بحثوں نے طول پکڑنا شروع کر لیا۔ معتزلہ نے اہل کبائر کے بارے میں خوارج کے ساتھ اخروی احکام کی بابت تو اتفاق کر لیا مگر دنیوی احکام میں اختلاف رکھا، چنانچہ خوارج کی طرح ان کے جان و مال کو اپنے لئے حلال نہ کیا۔ ان کے ناموں کے بارے میں ایک نیا(بدعت)نام متعارف کرایا یعنی