کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 247
مامور حکم کی نافرمانی کرے گا اور اطاعت نہیں کرے گا۔ ان کا یہ گمان بھی تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ بگڑے گا۔ جب ان کی بدعت اس حد تک پہنچے گی کہ تقدیر پہلے سے مقرر نہیں ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زبردست طریقے سے اس کا رد کیا اور ان لوگوں سے براءت کا اظہار کیا حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان سے کہہ دو کہ میں ان سے بری ہوں اور یہ مجھ سے بری ہیں، اللہ رب العزت کی قسم! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد جتنا سونا بھی ہو اور وہ اسے خرچ کر دے تب بھی اللہ تعالیٰ اس سے قبول نہیں کرے گا تاآنکہ قدر کے ساتھ ایمان نہ لے آئے۔ پھر آپ نے اپنے والد گرامی سے حدیث جبریل علیہ السلام روایت کی، صحیح مسلم کی یہ پہلی حدیث ہے، بخاری اور مسلم رحمۃ اللہ علیہم نے یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی نقل کی ہے۔ پھر اس کے بعد تو تقدیر میں بحث و جدال اور بھی بڑھ گیا، زیادہ تر یہ کام بصرہ اور شام میں اور کسی حد تک مدینہ میں ہوتا رہا، ان میں سے معتدل لوگ اور جمہور لوگ ازلی تقدیر اور پہلے سے لکھے ہوئے پر ایمان رکھتے تھے، ان کا جھگڑا صرف ارادہ الٰہی اور افعال العباد کے مخلوق ہونے کے بارے میں تھا۔ ان کے دو گروہ ہو گئے تھے: ایک منکرین تھے جو کہتے تھے کہ ارادہ مشیت سے مختلف کوئی چیز نہیں اور اللہ کا ارادہ وہی ہے جو اس کے احکامات ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق نہیں ہے۔ تقدیر میں الجھنے والے دوسرے لوگ جبریہ تھے، مثلاً جہم بن صفوان اور اس قسم کے دیگر لوگ، یہ کہتے تھے کہ ارادہ مشیت سے مختلف کوئی چیز نہیں اور امرونہی کے لئے ارادہ مستلزم نہیں، بنا بریں آدمی کا اپنا فعل کوئی ہے ہی نہیں نہ ہی اس کا کوئی اختیار چلتا ہے۔ اس کے