کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 246
ہی مکمل ہوتا ہے، اسی بناء پر وہ اعمال کو ایمان کا ثمرہ اور تقاضا خیال کرتے ہیں جیسا کہ سبب اور مسبب میں تعلق ہے، اعمال کو ایمان کا لازم نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ اعضاء کا عمل لامحالہ دل کے ایمان کو مستلزم ہے اور یہ ناممکن ہے کہ دل میں ایمان مکمل صورت میں موجود ہو مگر کوئی عمل آدمی نہ کرے۔(ج 7 ص 194-204)
(4)،(5) قدریہ اور جہمیہ
قدریہ کی بدعت صحابہ کے آخر زمانے میں اس وقت پیدا ہو گئی تھی جب قدر کے بارے میں غوروخوض شروع ہوا، تاآنکہ بڑھتا بڑھتا یہ فتنہ دو مختلف راہیں اختیار کر گیا: ایک منکرین قدر جو بعد میں قدریہ اور معتزلہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ دوسرا جبریہ جو بشری قدرت و اختیار کا مکمل طور پر انکار کرتے تھے، یہ لوگ بعد ازاں جہمیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر ان میں سے ہر فرقہ قدر کے بارے میں اپنے اپنے مذہب میں مزید بدعات اور گمراہ اقوال کا اضافہ کرتا رہا، جبکہ یہ دونوں فرقے اللہ تعالیٰ کی صفات کی کلی یا جزوی نفی کے اصول پر اتفاق رکھتے تھے۔
٭ پھر صحابہ کے آخری زمانے میں قدریہ نے جنم لیا۔ ان کی اس بدعت کی بنیاد یہ تھی کہ ان کی عقل بیک وقت اللہ کی تقدیر، اس کے امرونہی اور وعدووعید کے ساتھ ایمان لانے سے قاصر تھی۔ ان باتوں کو وہ ناممکن سمجھتے تھے، اگرچہ اللہ کے دین، امرونہی اور وعدووعید کے ساتھ ایمان لائے تھے مگر کہتے تھے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ حکم دینے سے پہلے معلوم ہو کہ کون مانے گا اور کون سرتابی کرے گا کیونکہ ان کا گمان تھا کہ جسے یہ علم ہے کہ کیا ہو گا اور کیا نہیں اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ حکم صادر کرے جبکہ اس کو علم ہے کہ اس کا