کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 244
لئے ائمہ سنت نے مرجئہ اور مفضلہ کے مذہب سے عام لوگوں کو باز رکھنے کے لئے ان کے مذہب کی مذمت کی خاطر کلام کیا ہے۔ مثلاً امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر ترجیح دیتا ہے وہ مہاجرین و انصار کی تحقیر کا مرتکب ہوتا ہے، اور میں نہیں سمجھتا کہ ایسے شخص کا کوئی عمل قبولیت کے لئے اللہ کی طرف بلند ہوتا ہو۔ انہوں نے یہ اس وقت جب کوفہ کے بعض ائمہ مذہب تقدیم(تقدیم علی رضی اللہ عنہ)سے منسوب ہوئے۔ اسی طرح حضرت ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دیتا ہے وہ مہاجرین و انصار کی تحقیر کرتا ہے۔ انہوں نے یہ اس وقت کہا جب انہیں کوفہ کے بعض ائمہ کے اس قول کے بارے میں بتایا گیا۔ یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ اسی طرح جب بعض مشہور علماء، ارجاء سے منسوب ہوئے تو امام سفیان ثوری، مالک، شافعی رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ نے مرجئہ کی مذمت میں اسی طرح کے اقوال بیان فرمائے ہیں۔(ج 3 ص 355) ٭ مرجئہ کے وہ لوگ جن کا مذہب ہے کہ: ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے اور اعمال اس میں شامل نہیں ہے، ان میں کوفہ کے بعض فقہاء اور زاہد حضرات بھی شامل رہے ہیں، تاہم ان کا مذہب جہم بن صفوان کے مذہب سے مختلف رہا ہے۔ چنانچہ یہ حضرات اس بات کو مانتے تھے کہ انسان قدرت رکھنے کے باوجود زبان سے ایمان کا اقرار نہ کرے تو مومن نہیں ہوتا اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابلیس، فرعون اور اس قسم کے دیگر لوگ دل میں تصدیق ہونے کے باوجود بھی کفار ہیں، مرجئہ متکلمین اور فقہاء ایسے حضرات اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اعمال کو مجازاً ایمان کہا جا سکتا ہے کیونکہ عمل ایمان کا ثمرہ ہے اور اس کا