کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 243
خاص فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ فقہاء جن سے یہ مذہب منسوب تھا مثلاً حماد بن ابی سفیان، ابو حنیفہ وغیرہ تو ایسے علماء، تو یہ حضرات تمام اہل سنت سے اس بات میں متفق تھے کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اہل کبائر میں سے جسے چاہے گا عذاب دے گا پھر شفاعت کے ساتھ اسے دوزخ سے نکال لے گا جیسا کہ صحیح احادیث میں یہ وارد ہوئی ہے، اسی طرح اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ ایمان کے لئے زبان سے اقرار کرنا شرط ہے اور یہ کہ فرض اعمال واجب ہیں اور ضروری ہیں ان کو ترک کرنے والا مذمت و ملامت اور عذاب کا مستحق ہے۔ چنانچہ اعمال کے بارے میں یہ سوال کہ کیا وہ ایمان میں شامل ہیں یا مستثنیٰ یہ اور اس قسم کے امور زیادہ تر لفظی نزاع ہی تک محدود رہتے تھے۔۔ عام طور پر اکابر علماء میں سے جن لوگوں کے ساتھ ارجاء کو منسوب کیا گیا ہے ان میں طلق بن حبیب اور ابراہیم تیمی ایسے حضرات شامل ہیں، تو ان کا ارجاء اسی نوعیت کا تھا۔۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ایمان سے اعمال کو مستثنیٰ کرنے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ بلکہ انہیں ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں مرجئہ وہ ہیں جو فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کو واجب قرار نہیں دیتے بلکہ صرف ایمان کو کافی سمجھتے ہیں، چنانچہ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسائل میں اختلاف بعض اوقات لفظی بھی ہو سکتا ہے۔(ج 13 ص 38-43)
٭ مرجئہ شدید ترین بدعتی فرقوں میں شمار نہیں ہوتے بلکہ ان میں فقہاء اور زاہد و عبادت کے حامل لوگ شامل ہوئے ہیں، جبکہ وہ اہل سنت ہی میں شمار ہوتے ہیں تاآنکہ مرجئہ نے بعد ازاں مزید بدعات اپنے مذہب میں شامل کر لیں۔ پھر چونکہ کچھ مشہور پیشوا قسم کے حضرات بھی ارجاء اور تفضیل(علی رضی اللہ عنہ)ایسے مذاہب سے منسوب کر دئیے گئے تھے اس