کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 236
میسر آ سکی جس کی بناء پر وہ مسلمانوں سے معرکہ قتال میں پورے اتر سکیں۔ یہ چیز صرف خوارج کو میسر آ سکی تھی جن کا امام بھی الگ تھا اور جماعت بھی، اپنے ملک کو انہوں نے دار الہجرۃ قرار دیا تھا اور مسلمانوں کے ملک کو دارالکفر اور دارالحرب۔ یہ دونوں فرقے ہی مسلمان امراء کو برا بھلا بلکہ کافر کہتے ہیں جمہور خوارج تو حضرات عثمان اور علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کو کافر کہتے ہیں جبکہ رافضی ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم اور ان کے سب ساتھیوں پر لعنت بھیجنے کے قائل ہیں تاہم ظاہری خرابی اور فساد خوارج میں عام ہو پایا تھا جو کہ قتل و خون ریزی، لوٹ کھسوٹ اور خروج و بغاوت تک پہنچ گیا تھا۔ اسی لئے صحیح احادیث میں ان سے قتال کا بھی حکم ہے۔۔ جہاں تک لفظ ’’رافضہ‘‘ کا تعلق ہے تو اسلام کی تاریخ میں یہ سب سے پہلے اس وقت ظہور پذیر ہوا جب دوسری صدی کے شروع میں زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے ہشام بن عبدالملک کے دور میں خروج کیا اور شیعہ نے ان کی پیروی و ہمرکابی کی، تو ان سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں سوال کیا گیا، جواب میں انہوں نے ان دونوں حضرات سے محبت و ولایت کا اظہار کیا اور ان کے لئے رحمت کی دعا کی۔ اس بناء پر ان کی جماعت(شیعہ)نے ان کو رد کر دیا۔ وہ کہنے لگے: رفضتموني رفضتموني ’’تم نے میرا انکار کر دیا‘‘ اس بناء پر ان کا نام رافضہ پڑ گیا اس کے بعد رافضہ ان کے دوسرے بھائی ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ کے پیروکار ہو گئے جبکہ زیدیہ، زید کے ہی پیروکار رہے اور انہی سے ہنوز منسوب ہیں۔ اسی وقت سے شیعہ دو ٹولوں میں بٹ گئے ایک زیدیہ کہلاتا تھا اور دوسرا رافضہ امامیہ۔(ج 3 ص 33-36) ٭ شیعہ نے اماموں کے بارے میں بے تحاشا غلو کر کے ان کو اس مرتبے پر فائز کر دیا کہ