کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 235
فرمایا تھا: اس امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی ’’صحیح‘‘ میں محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر اور افضل کون ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ، انہوں نے سوال کیا: ان کے بعد کون ہے؟ فرمانے لگے: عمر رضی اللہ عنہ، پہلے پہل کے شیعہ، حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے، ان کا اختلاف صرف اور صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا۔ چنانچہ شریک بن عبداللہ رحمہ اللہ کا قول مشہور ہے کہ انہوں نے جب یہ کہا ’’کہ سب لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں‘‘ تو ان سے سوال کیا گیا: یہ آپ کہہ رہے ہیں جبکہ آپ شیعہ ہیں تو وہ کہنے لگے ’’سبھی شیعہ کا یہی اعتقاد ہوا کرتا تھا، یہی بات تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود برسر منبر بسا اوقات کہی ہے، کیا ہم ان کو بھی جھٹلانے لگیں؟ اس بناء پر حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر ترجیح و فضیلت دیتا ہے وہ سب مہاجرین و انصار کی تحقیر کرتا ہے، اور میرا نہیں خیال کہ ایسے شخص کا اس حال میں رہتے ہوئے کوئی عمل اللہ کے ہاں قبولیت کے لئے آسمان کی طرف بلند ہوتا ہو۔(بروایت سنن ابی داؤد) شاید ان کا اشارہ حسن بن صالح بن حی کی جانب ہے کیونکہ زیدیہ صالحہ جو زیدیہ میں سب سے بہتر جماعت ہے، انہی کی طرف منسوب ہے۔ تاہم اس دور میں شیعہ کی کوئی جماعت قائم نہ ہو سکی نہ ہی امام، اور نہ ہی کوئی ملک یا قوت